سوال و جواب کے کسی بھی پرو گرام میں 2غلطیوں کے بعد اعلان کیا جا تا ہے کہ اب غلطی کی گنجا ئش نہیں یعنی غلطی کرنے والا مقابلے سے باہر ہو جائے گا یہی بات افغان جنگجووں کے ساتھ معاہدے کی صورت میں افغا ن جنگجووں کی آنے والی جنگوں پر صادق آتی ہے معا ہدے کے بعد اگر بد امنی کا سلسلہ بند نہیں ہوا تو افغانستان کے حصے بخرے ہو جائینگے معا ہدے کے 4دفعات ہیں پہلا دفعہ یہ ہے کہ افغان جنگجووں کی طرف سے امریکی افواج اور امریکی اتحا دیوں پر حملے نہیں ہونگے دوسرا دفعہ یہ ہے کہ جنگجو اس بات کی ضما نت دے رہے ہیں کہ کسی بھی تنظیم کو افغان سر زمین پر امریکہ اور اس کے اتحا دیوں پر حملوں کے لئے استعمال کرنے کی اجا زت نہیں ہو گی تیسرا دفعہ یہ ہے کہ افغان جنگجو افغا نستان کی حکومت کے ساتھ مذکرات کرکے مستقبل کا لا ئحہ عمل اور شراکت اقتدار کا فار مو لا طے کرینگے چو تھا دفعہ یہ ہے کہ افغان جنگجو عارضی جنگ بندی کو مستقبل جنگ بندی کی حیثیت دے کر بر قرار رکھینگے جن لو گوں نے معا ہدے پر دستخط کرنے والوں کی قومیت اور اس معا ہدے میں استعمال ہوے والی زبا ن پر غور نہیں کیا وہ اس کو افغان قوم کی بڑی فتح قرار دے رہے ہیں کوئی کہتا ہے کہ مو لانا فضل الرحمن کا خواب تھا کوئی کہتا ہے یہ بے نظیر بھٹو کا خواب تھا کوئی کہتا ہے یہ جنرل حمید گل کی پیش گوئی تھی کوئی کہتا ہے یہ مولانا سمیع الحق کی قر بانیوں کا نتیجہ ہے اور کوئی دورکی کوڑی لا کر دعویٰ کرتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کا وژن تھا دو باتیں قابل غور ہیں پہلی بات یہ ہے کہ معا ہدے پر امریکہ کی طرف سے کسی نے دستخط نہیں کیا زلمے خلیل زاد اور ملا عبد الغنی برادر دونوں افغان ہیں دوافغا نوں نے آپس میں معا ہدہ کیا مگر اس معا ہدے میں ایک دوسرے پر ہتھیار نہ اُٹھا نے کا کوئی ذکر نہیں ہے معا ہدے میں صاف الفاظ میں لکھا گیا ہے کہ امریکی افواج امریکی افواج کے اتحا دیوں اور ان کے ٹھیکہ داروں پر حملے نہیں ہونگے یوں نیٹو فو جیوں کی سلا متی یقینی ہو گئی بھارتی ٹھیکہ داروں کی سلا متی کی ضما نت دے دی گئی افغا ن حکومت، افغان سیا سی گروپوں اور افغان مذہبی یا قومی جما عتوں کی سلامتی کا کوئی ذکر نہیں ہوا اس کو انٹر ا افغان ڈائیلاگ یعنی افغا نوں کے درمیاں مذاکرات کا نام دے کر گول کردیا گیا یہاں سے غلطی کی گنجا ئش نکل آتی ہے اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ستمبر 2019کے انتخا بات میں اشرف غنی پھر کامیاب ہوگئے ہیں اس کامیابی کوامریکی اور بھارتی لا بی سے تعلق رکھنے والوں نے تسلیم نہیں کیا عبداللہ عبداللہ اور رشید دوستم نے انتخا بی نتائج کو مسترد کیا ہے گذشتہ انتخا بات میں بھی عبداللہ عبداللہ نے اپنی شکست کو تسلیم نہیں کیا تھا پھر امریکہ نے انہیں چیف ایگزیکٹیوں کی حیثیت سے حکومت میں شامل کیا چیف ایگزیکٹیو وہ عہدہ ہے جو افغان آئین میں نہیں ہے مو جودہ انتخا بات کو گلبدین نے بھی تسلیم نہیں کیا اس صورت حال کو مزید گھمبیر بنا نے کے لئے معا ہدے میں جنگجووں کے لئے امارت اسلامی کے نما ئیندوں کا نام استعمال کیا گیا ہے امارت اسلامی 1996ء میں قائم ہونے والی طالبان حکومت کا نا م تھا معا ہدے میں افغان حکومت کو فریق نہیں بنا یا گیا معاہدے کی ذیلی دفعات کا اگر جا ئزہ لیا جائے تو مزید قبا حتوں کا سراغ ملے گا یہ ایسا معاہدہ ہے جس میں کوئی فاتح نہیں کوئی مفتوح نہیں افغان حکومت جنگجووں کے قیدیوں کو رہا کریگی مگر معاہدے میں افغان حکومت شریک نہیں ہے قیدیوں کی رہا ئی کس طرح عمل میں آئیگی افغا نوں کے درمیاں با ہمی مذاکرات کے لئے کوئی لائحہ عمل نہیں دیا گیا۔اس طرح امریکی افواج اور نیٹو فو جیوں کے ساتھ اتحا دی فو جیوں کے اخراج کا معا ملہ بھی مبہم رکھا گیا ایک سال دو ماہ بعد امریکہ اور اس کے اتحا دی طے کرینگے کہ فو جوں کا اخراج کب شروع ہو اور کب مکمل ہو؟ اس بات کی کوئی ضما نت نہیں کہ افغان حکومت کس کے ہاتھ میں ہو گی 14مہینے بعد اگرافغان حکومت نے امریکہ اور اتحا دیوں سے مزید 10سال افغانستان میں رہنے کی استدعا کی تو اس کا کیا انجام ہوگا؟ اس انجام سے بچنے کے لئے امارت اسلامی کے نمائیندوں کو حکومت میں شامل کرنے کا کوئی طریقہ کار تجویز نہیں کیا گیا تین امکا نات ہیں پہلا امکان یہ ہے ستمبر 2019ء کے انتخابی نتائج کو منسوخ کرکے نئے انتخا بات کرائے جائیں دوسرا غا لب امکان یہ ہے کہ انتخا بات کے بغیر لویہ جر گہ کے ذریعے نیا اسلامی آئین بنا کر اس کے تحت اتفاق رائے سے ارباب حل و عقد کی قومی حکومت بنائی جائے جس کی باگ ڈور جنگجووں کے ہاتھ میں ہو تیسرا امکا ن یہ ہے کہ افغان جنگجو اگلے انتخا بات تک شراکت اقتدار کا مطالبہ نہ کریں بلکہ امارت اسلامی کے قیام کے لئے فکری آئینی اور سیا سی تیاری کر کے اگلے انتخا بات میں سیکولر عنا صر کو شکست فاش دے کر اپنی حکومت قائم کریں ان خد شات اور امکا نات کو سامنے رکھ کر افغانستان کے ہمدرد، جنگجووں کے دوست اور بہی خواہ مشورہ دیتے ہیں کہ اب غلطی کی گنجا ئش نہیں 1991ء سے 1996تک افغان جنگجو وں نے آپس کی لڑا ئیوں میں بڑا نقصان اٹھا یا تھا اُس دور میں مسجد الحرام مکہ معظمہ میں قسم اٹھا کر پھر قسم کو توڑا گیا تھا اب ایسی غلطی کی گنجائش نہیں ہونی چاہئیے۔
تازہ ترین
- ہومداد بیداد ۔۔سر راہ چلتے چلتے ۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”یہ ہمارے ہیرے”۔۔محمد جاوید حیات
- ہومچترال کی باشرافت ماحول کو بے شرافتی اور باحیا ماحول کو بے حیائی کی طرف لے جانے کی کوشش کی گئی ہے جوکہ ناقابل برداشت ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کے سینئر رہنما ؤں کی پریس کانفرنس
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی