آج کل فیس بک میں اکثر یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ ثقافت کیا ہے؟اور پھر آگے ”چترالی ثقافت“ کا پوچھا جاتا ہے۔دنیا کی تاریخ تہذیبوں کی اتارچھڑاؤ اور احیاء و اموات سے بھری پڑی ہے اور آج کل اس مذہب دنیا میں بھی ایسی ایسی تہذیبیں زندہ ہیں کہ ان کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جائے۔۔دنیا کی جعرافیائی تاریخ میں بر اعظم اشیاء تہذیبوں کا گڑھ رہا ہے۔یہاں سے کئی تہذیبوں نے جنم لی اور دنیا میں پھیل گئیں سامی،یدق،قاقاری،تاتاری،گواسی،یونانی،ساسانی،گندھارہ،بدھ مت وغیرہ تہذیبیں یہاں کی ہیں۔آگے اسلامی تہذیبی انقلاب بھی یہاں سے اُٹھا۔سوال کرنے والے اور پوچھنے والے شاید تذبذب میں ہوں کہ ”تہذیب“ کیا چیز ہے؟اور ”ثقافت“ کیا بلا ہے؟ یہ دونوں انسانی طرز زندگی کے طریقہ کا ر ہیں۔۔ثقافت تہذیب سے وسیع مفہوم رکھتی ہے۔۔ثقافت عربی لفظ ہے۔۔ایک معنی درست کرنا،سیدھا کرنا ہے اگر کسی کی ”سیف“ یعنی تلوار ٹیڑھی ہوجائے اس کو لوہار کے پاس لے جا کر کہتا ہے ” ثقف الیسف“ میری تلوار درست کر دو۔اس سے مراد یہ ہوئی کہ ہر درست ترتیب ثقافت ہے۔۔”تہذیب“ بھی یہی معنی رکھتی ہے۔پودوں کی شاخ تراشی کو تہذیب کہتے ہیں۔خلاصہ بحث کا یوں ہوا کہ انسان ہر لحاظ سے درست ہو خواہ وہ لباس پوشاک ہو خواہ وہ قول و عمل ہو خواہ وہ نشست و برخواست ہو۔اس کی ہر ہر حرکت دل کو پسند آئے نگاہوں کو بھلی لگے۔علاقے کے رسوم و رواج کے مطابق ہو اور جیسے زندگی گزاری جا رہی ہو ان اصولوں کے مطابق ہو ثقافت کے اصولوں کو عملی طور پر مظاہرہ کرنے کو ”تہذیب“ کہتے ہیں مثلاچترالی ٹوپی کی ایک الگ پہچان ہے اور اس کو پہنے کا بھی ایک الگ انداز ہے اگر کو ئی اس کو ٹیڑھی پہن لے تو اس کو ”بد ثقافت“ نہیں ”بد تہذیب“ کہیں گے۔اب قابل توجہ بات یہ ہے کہ اسلام نے دنیا میں جس تہذیب و ثقافت کی بنیاد رکھی وہ ہر مسلمان کی پہچان ہے اسی ثقافت کی بنیاد پر مسلمان کو پہچاناجاتا ہے۔۔اس کے قول و فعل اس کی طرز زندگی اس کا لباس پوشاک سے اس اسلامی ثقافت کے دائرے میں ہوتے ہیں لازم ہے کسی بھی قوم کے پاس اس کی اپنی زبان ہوتی ہے اپنا ادب ہوتا ہے۔اپنی محفلیں ہوتی ہیں لیکن اگر وہ مسلمان ہے تو وہ سب اسلامی اقدار کے تابع ہوتے ہیں تب جاکے اس کو لیبل دیا جاتا ہے کہ وہ فرد مسلمان ہے۔اگر کوئی غیر مسلم اسلام میں داخل ہوتا ہے تو اس کو اپنی ثقافت بھی چھوڑنی ہوتی ہے۔یعنی کہ ایک مسلمان عورت پردہ کرتی ہے سر ڈھانپتی ہے تو وہ بھی ایسا کرے گی۔لباس اسلامی ثقافت کا بہت بڑا حصہ ہے لیکن ہمارے پاس یہ جواز ہے کہ اسلام میں لباس پر قدعن نہیں۔بات درست ہے کہ اسلام عالمگیر مذہب ہے مسلمان اپنے جعرافیائی حالات کے مطابق لباس استعمال کرتا ہے لیکن اسلام میں لباس کا مقصد ستر چھپانا ہے اگر کوئی لباس اسلامی طریقے کی ستر پوشی نہ کرے تواس کو نہ اسلامی ثقافت کہہ سکتے ہیں اورنہ اسلامی لباس۔
بات چترال کی ہو رہی ہے تو چترال اپنی بے مثال ثقافت کی وجہ سے دنیا میں مشہور ہے۔۔اب اس ”بے مثال“ کی تعریف کیا ہے؟وہ یوں کہ چترالی پر امن لوگ ہیں۔۔یہ کہ چترالی فحش عریان نہیں ہیں۔یہ کہ ان کی زبان نرم و شرین اور دل موہ لینے والی ہے۔۔یہ کہ اس علاقے میں عورت شر م و حیاء کا پیکر ہے۔۔یہ کہ یہاں پہ عورت بے حجاب سڑکوں بازاروں میں نہیں پھرتی۔یہ کہ یہاں پر رشتے ناتے کا بڑا احترام ہے۔ماں بیٹے کے سامنے۔بہن بھائی کے سامنے۔بیوی شوہر کے سامنے ننگے سر نہیں ہوتی۔اونچی آواز میں نہیں بولتی۔لڑتی جھگڑتی نہیں یہ کہ مردو خواتیں کاا ختلاط نہیں ہوتا۔۔کھانا تک الگ الگ کھاتے ہیں۔مرد اپنے گھرمیں باورچی خانے میں بلا ضرورت نہیں جاتا۔یہ کہ پینٹ شرٹ مرد کا لباس نہیں۔بال بڑھا کے ” ہیپی“ بنناچترالی جوان کا خاصہ نہیں۔یہاں والدیں کی نافر مانی نہیں کی جاتی۔گانابجانا خاص خاص محفلوں میں کبھی کبھار ہوتا ہے۔شاعری تہذیب کے اندر ہوتی ہے۔لکھاری اپنی ثقافت کا لحاظ رکھتا ہے۔کلا کار خالی ہاوء ہو نہیں کرتا عالم دین کو اپنی ثقافت کاپاس لحاظ ہے۔رشتے اس بنیاد پر ہوتے ہیں۔دوستیاں ان اصولوں پر نبھائی جاتی ہیں۔جھوٹ بولنا،دھوکہ دینا،بے وفائی کرنا،دشمنیاں بھرنا چترالی تہذیب میں نہیں۔بھیک نہیں مانگی جاتی۔اپنی اور دوسروں کی عزت نفس کا خیال رکھا جاتا ہے۔اگر ان سب نکتوں پر غور کیا جائے تو چترالی تہذیب عین اسلامی تہذیب ہے اور چترالی کوتو یہ فخر حاصل ہے کہ وہ اپنی تہذیب کے اندر رہ کر بھی عین اسلامی تہذیب میں ہے۔۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آج کل ہماری تعلیم اور جدید سوچ نے ہمیں ہماری تہذیب سے دور کرتی جارہی ہے۔۔تعلیم یافتہ بیٹی سر سے دوپٹہ پھینگ دیتی ہے۔بیٹا ٹایڈ پینٹ شارٹ میں ہوتا ہے ان کا اٹھنا بیٹھنا اپنی تہذیب کے خلاف ہوتا ہے۔وہ شرافت کا لبادہ تار تار کر چکے ہوتے ہیں۔۔ان کی زبان ان کی اپنی نہیں ہوتی۔۔رشتوں ناتوں کے وہ فاصلے اور معیار مٹ گئے ہیں پھر جھوٹ منافقت اور دھوکہ دہی بھی آگئی ہے کسی زمانے میں لوگ چترالیوں کے ساتھ تعلق کو اپنے لیے فخر سمجھتے تھے اب دور بھاگتے ہیں۔کسی زمانے میں چترالی زبان کھوار خالص ہو اکرتی تھی آج یہ مرتی جا رہی ہے۔۔لیکن مایوسی کی بات نہیں ہے۔آج بھی چترال میں وہ روایت کے امین موجود ہیں جو چترالی ثقافت کی پہچان ہیں۔یہی لو گ اس کی حفاظت کر تے ہیں اور کر سکتے ہیں۔چاہیے کہ نئی نسل کو اس اکیڈیمی سے گزارا جائے جہان چترالی ثقافت کا درس دیا جاتا تھا۔۔والدین کو چاہیے کہ بچوں کو چترالی ثقافت پڑھائیں۔اساتذہ کو چاہیے کہ اداروں میں اس تہذیب کا عملی نمونہ بن جائیں آفسرز کو چاہیے کہ وہ ہر کہیں چترال کا سفیر بن جائیں۔شعراء ادبا ء اور فنکاروں کو چاہیے کہ چترال کی تہذیب و ثقافت کا امین بنیں۔چترالی ثقافت اپنی اصلی حالت میں دیہات میں اور ان ان پڑھ بزرگوں کے ہاں اب بھی موجود ہے آپ دیکھ بھی سکتے ہیں اور محسوس بھی کر سکتے ہیں۔ہم اپنے آپ کو نئے دور کے لوگ کہنے والوں کے دامن میں چھید ہے ثقافت کے موتی یہاں سے گرتے ہیں بکھر جاتے ہیں اور گم ہوتے جا رہے ہیں۔۔ ثقافت نہ ناچ گانے کا نام ہے نہ بہت پرانی اور مجبوری کے لباس ”کرکوٹ“ وغیرہ کی نمائش کا نام ہے۔ وہ ہماری مجبوری تھی۔مجبوری ثقافت نہیں کہلاتی وہ وقت کے ساتھ خود ختم ہو جاتی ہے۔آج کل ایوارڈ،شو،میلہ وغیرہ کے نام پر سستی سی شہرت حاصل کرنے کے لئے اپنے آپ کو پیش کرنا اچھائی نہیں کیونکہ اگر آپ حقدار نہیں ہیں مگر آپ کو ایوارڈ یا لقب دیا جاتا ہے تو یہ آپ کو بیوقوف بنانا ہے۔پتہ نہیں اچھے خاصے لوگ اپنے آپ کو بے قوف بنانے میں فخر کیوں محسوس کرتے ہیں۔وقت کا تقاضا ہے کہ ہم سنجیدگی سے اپنی ثقافت کی حفاظت اور احیاء کا سوچیں ورنہ تو ہم بس سوال ہی پوچھتے رہیں گے۔۔۔کہ ثقافت کسے کہتے ہیں؟۔۔اور جواب دینے والا کہے گا۔۔۔ایک دفعہ کا ذکر ہے۔۔۔۔۔
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات