داد بیداد۔۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔مستقبل کا خا کہ
مستقبل کا خا کہ
مشرف کے مقدمے کا فیصلہ آنے کے بعد مبّصرین اور تجزیہ نگاروں نے ما ضی کو کریدنا شروع کیا ہے یہ معا ملات کو دیکھنے اور پر کھنے کا روا یتی انداز ہے ہر وا قعے پر اظہار خیال کرتے ہوئے 30سال یا 50سال یا 72سال پیچھے لیجا نے کی نسبت اس کے اثرات اور مضمرات کو 50سال یا 100سال آگے لیجا کر دیکھنے اور پر کھنے کی کو شش کی جائے تو ملک وقوم کے حق میں بہتر ہوگا پا لیسی سازوں کو گائیڈ لائن مل جائیگی سیا سی عنا صر کو بھی رہنما ئی ملے گی خصو صی عدالت کی طرف سے پر ویز مشرف کو سزائے مو ت دینے کا فیصلہ منظر عام پر آنے کے بعد فوج کی طرف سے سخت ردّ عمل سامنے آیا ہے قا نونی ما ہرین کہتے ہیں کہ فیصلے کے خلا ف سپریم کورٹ اپیل دائر کرنے کی گنجا ئش مو جو د ہے اور اپیل کے لئے قانونی نکا ت بھی کا فی ہیں اس لئے فیصلے کو حتمی نہیں سمجھنا چا ہئیے ہم 100سا لوں کا حساب نہیں کھو لینگے کہ 2019میں کیا ہو گا 50سال آگے جا نا بھی مشکل ہے صرف 10سال آگے جا کر دیکھتے ہیں کہ اس فیصلے کے مضمرات کیا ہو نگے نتائج کیا ہو نگے اس وقت ہماری جمہوری حکومت کو اس بات پر فخر ہے کہ ادارے اُس کے ساتھ نہیں یا ادارے اُس کی پُشت پر ہیں اس پر فخر کرنا درست بھی ہے بجا بھی ہے اگلے سال جنوری 2020ء میں جمہوری حکومت یہ دعویٰ نہیں کر سکے گی اب عدلیہ الگ لائن اختیار کرے گی فوج الگ راستے پر رواں ہو گی جمہوریت کی پشت پر صرف ایک ادارہ ہو گا فو ج ہو گی تو عدلیہ پیچھے ہٹے گی عدلیہ اس کی پُشت پر ہو گی تو فوج پیچھے ہٹے گی انتخا بات میں الیکشن کمیشن کو افرادی قوت عدلیہ فراہم کرتی ہے پو لنگ کے دن مقا می انتظا میہ کی طرف سے فوج کی خد مات حا صل کرنے کی درخواست آتی ہے اس درخواست فوج کے افیسروں اور جوا نوں کو پو لنگ سٹیشن میں ڈیو ٹی دینے کے لئے بلا یا جاتا ہے 2020ء میں فوج اور عد لیہ کا یہ اشتراک عمل ٹوٹ جائے گا یا عدلیہ ڈیوٹی دیگی یا سارا کام فوج سے لیا جائے گا 2020ء کے بعد عدلیہ پر دباء بڑ ھ جائے گا 21لاکھ مقدمات اس وقت تعطل کا شکار ہیں اگر عدلیہ پر دباؤ آیا تو ان مقدمات کے فیصلے آجائینگے اور یہ تاثر ختم ہو جائے گا کہ عدا لتوں میں ہر مقدمہ 25یا 30سال لے لیتا ہے یہ اس واقعے کا ایک اور مثبت پہلو یہ ہے کہ اس فیصلے کے بعد جب بھی ملکی اداروں کا نام آئے گا عدلیہ کو سر فہرست رکھا جائے گا خوف کا جو عنصر فوج اور قومی سلامتی کے اداروں سے وابستہ تھا ایسا ہی خوف اس فیصلے کے بعد عدلیہ سے بھی وا بستہ ہو گا اس فیصلے کا مستقبل پر منفی اثرات بھی پڑینگے مثلاً ہمارے معا شرے میں اب تک فوج کے جر نیلوں اور عدلیہ کے ججوں کو انگریزی تر کیب کی رو سے (سیکرڈ کاؤ) مقدس گائے کی حیثیت حا صل تھی جب دونوں ادارے ایک دوسرے کے مقا بلے پر میدان میں اتر ینگے تو دونوں کے بارے میں مقدس یا تنقیدسے با تر کا تاثر ختم ہو جائے گا دونوں کے بارے میں لوگ کھل کر باتیں کرینگے پرنٹ اور الیکڑا نک میڈیا میں جو احتیاط بر تی جا تی تھی و ہ ختم ہو جائیگی بزرگ سیا ستدان نوابزادہ نصر اللہ خان مر حوم نے 1990ء میں دو سیا سی جما عتوں کی با ہمی رنجش اور دشمنی کو جمہوریت کے لئے زہر قاتل قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ روایت دوسری پارٹیوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیگی اور ملک کی سیا سی فضا مسموم ہو جائیگی مر حوم کی پیشگوئی 30سال سے بھی کم عرصے میں حرف بحرف درست ثا بت ہوئی ہے آج ملک کے اندر تمام سیا سی قوتیں با ہم مشت بگریباں ہو چکی ہیں سیا سی پارٹیوں کے اندر بھی پھوٹ پڑ چکی ہے حا لانکہ سیا سی جما عتوں کا فریضہ قوم کو اور پارلیمنٹ کو متحد رکھنا ہے آئیندہ یہ خواب چکنا چور ہو جائیگا پا کستان کی سول سروس اب تک دیگر اداروں کو متحد رکھنے میں کردار ادا کرتی تھی اس فیصلے کے بعد سول سروس کا منہ زور گھوڑا بے لگام ہو جائے گا اور اس کو اتحا د کا سفیر ہونے کے بجائے ٹوٹ پھوٹ اور توڑ پھوڑ والے اداروں کا آلہ کار بننے کا بہا نہ مل جائیگا اس طرح ہر سطح پر ضدبغض کینہ اور دشمنی کے پرانے قرض بھی چکا ئے جائینگے میرا مفروضہ یہ نہیں کہ مشرف کو مو ت کی سزا دی جائیگی میرا مفروضہ یہ ہے مشرف کی سزا پر عملدرآمد ہو یا نہ ہو،خصو صی عدالت کے فیصلے نے معا شرے میں مزید انتشار اورخلفشار کا بیج بودیا ہے اس بیج سے پیدا ہونے والا ایک روز تناور درخت بن جائے گا۔