درویش کا سفر/تحریر: کمال عبدالجمیل،،(صدر آئیڈیل کلب دروش)

Print Friendly, PDF & Email

خیبرپختونخوا کا صوبہ پچھلے کئی سالوں سے دہشت گردی سے ُبری طرح شکار رہا اور زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح کھیلوں کا شعبہ بھی اس سے متاثر ہوا، یہا ں پر کھیلوں کی سرگرمیاں ختم ہو گئی، کھیلوں کے میدان ویران رہے۔ جب دہشت گردی کی عفریت سے نجات ملی تو کھیلوں سے دلچسپی رکھنے والے لوگوں نے ایک بار پھر خیبر پختونخوا میں کھیلوں کی بحالی پر توجہ دی۔ پشاور کے ایک مقامی غیر سرکاری ادارے ”یوتھ گلیم ویلفیئر آرگنائزیشن“ نے خیبر پختونخوا میں کھیلوں کی بحالی کے ایک پروگرام کا آغاز کیاجسکا نام ہی ”Bring Back Sports to KP“ رکھا۔ یوتھ گلیم نے مقبول کھیل فٹ بال کو ایک نئی جہت دیتے ہوئے 2017؁ ء میں صوبائی دارالحکومت پشاور میں فٹ بال لیگ کا آغاز کیا۔ اسوقت اس لیگ میں کل 12ٹیمیں شامل تھیں۔ لیگ کو دلچسپ اور پر کشش بنانے کی خاطر منتظمین نے اسے پاکستان سپر لیگ کی طرز پرچلانے کی کوشش کی اور ٹیموں کو مختلف فرنچائز بنادیا۔ ابتدائی سال صوبائی حکومت کی دلچسپی اور تعاؤن شامل رہی، مختلف اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز نے فرنچائز حاصل کر لئے اور ٹیموں کی تشکیل سے لیکر انتظام و انصرام میں بھی حصہ لیا۔ چترال کے حصے میں ایک فرنچائز آیا جسے ”چترال مارخور“ کا نام دیا گیا، اسکی سرپرستی اسوقت کے ڈپٹی کمشنر چترال ارشاد سدھیر نے کی۔ پہلے سال لیگ میں ڈپٹی کمشنر پشاور کی ٹیم کو کامیابی حاصل ہوئی۔ 2018؁ء میں ہونے والے فٹ بال کے اس بڑے میلے میں کامیابی شنواری ستوری کو حاصل ہوئی۔
اس سال قومی سطح کے اس منفرد فٹ بال میلے میں شائقین اور مالکان کی دلچسپی مزید بڑھ گئی تاہم ساتھ ہی ساتھ صوبائی حکومت اور متعلقہ اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کی دلچسپی کم ہو ئی۔ شائقین اور کھلاڑیوں کی دلچسپی کے پیش نظر اس بار ٹیموں کی تعدا د میں اضافہ کیا گیا اور تین نئے ٹیم شامل کرکے ٹیموں کی تعداد 15کیا گیا۔ چترال کے نوجوان کھلاڑیوں کی دلچسپی اس میں بڑھ گئی، چترال مارخور کا فرنچائز پہلے سے ہی بک چکا تھااور مزید کسی ٹیم کو شامل کرنا تقریباً ناممکن تھا کیونکہ منتظمین نے پہلے ہی تین ٹیموں کو شامل کیا تھا۔ اس دوران یوتھ گلیم ویلفیئر آرگنائزیشن کے چیئرمین گل حیدر اور منیجر اسامہ پراچہ کے خصوصی تعاؤن سے ”قصہ خوانی درویش“نامی فرنچائز کو چترال کے آئیڈیل فٹ بال کلب دروش نے خرید لیا۔ قصہ خوانی درویش کی ٹیم کسی دوسرے ادارے کی ملکیت تھی۔ آئیڈیل کلب کی طرف سے ”قصہ خوانی درویش“ کے فرنچائز کو خریدنے کے فوراً بعد اسکا نام ”چترال درویش“ رکھ لیاگیا۔یہ سارا عمل لیگ کے شروع ہونے سے صرف 7دن پہلے ہوا۔ پشاور لیگ کے لئے ضابط بنایا گیا تھا کہ ہر ٹیم میں کسی ڈیپارٹمنٹ کے صرف 2کھلاڑی ہونگے باقی تمام کھلاڑی انڈر 23ہونگے۔ چترال درویش میں کھیلنے والے تمام کھلاڑیوں کو بھی خراج تحسین پیش کرنا چاہوں گا کیونکہ انہوں نے بغیر کسی مالی فائدے کے صرف چترال کے نام کی خاطر اپنے علاقے کی ٹیم میں کھیلنے کو ترجیح دی، یہ انکا اپنے علاقے ”چترال“ کے ساتھ محبت کا ثبوت ہے، خاصکر ڈیپارٹمنٹ کے اور سنیئر پلیئرز ٹیم کیپٹن اظہار اللہ لال، سید غازی اور حسن سید نے مختلف ٹیموں کے ڈیمانڈز کو ٹھکرا کر چترال درویش میں کھیلنے کو ترجیح دیکر نوجوان کھلاڑیوں کو لیکر میدان میں اترے۔
پشاور فٹ بال لیگ 19نومبر کو شروع ہونا تھا جسے بعد ازاں 21نومبر کو شروع کیا گیا۔ اتنے قلیل وقت میں ایک ٹیم کی تشکیل، اسکے سفر اور پشاور میں طویل رہائش کے لئے انتظامات کرنا ایک مشکل ترین کا م تھا مگر چونکہ ”چترال“ کا نام آچکا تھا اسلئے درویشوں کو ڈھونڈنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ درویشی کا سب سے اہم سرمایہ توکل علی اللہ ہوتا ہے اس لئے سفرکا آغاز کیا گیا۔چترال درویش ٹیم کی سرپرستی میرے بڑے بھائی قاری جما ل عبدالناصر صاحب، ڈی ایف اے کے روح رواں حسین احمد صاحب اور شہزادہ ہشام الملک صاحب کر رہے تھے، انکی طرف سے ہر ممکن مدد اور تعاؤن اور حوصلہ افزائی کی وجہ سے چترال درویش کے لئے سفر جاری رکھنا ممکن ہو سکا۔ ابتدائی طور پر چترال درویش کے منتظمین کو یہ خوش فہمی تھی کہ ہمارے سیاسی، سماجی اور کاروباری حضرات کے ساتھ ساتھ سرکاری حکام دل کھول کر چترال کی ٹیم کو سپورٹ کرینگے مگر یہ خواب چوبیس گھنٹوں کے اندر چکنا چور ہوگیا۔ ڈپٹی کمشنر چترال جناب نوید احمد صاحب نے اپنی ذاتی حیثیت میں چترال کے ٹیم کو مالی تعاؤن فراہم کیا، ڈی ایف اے چترال خاصکر ڈی ایف اے کے سرپرست حسین احمد صاحب نے بھر پور حوصلہ افزائی کی، کھلاڑیوں کا حوصلہ بڑھایا، ان کے جذبات کو ابھارا، ڈی ایف اے کے میچنگ گرانٹ سے مالی تعاؤن فراہم کرنے کو ممکن بنایا اور اس ڈی سی چترال نے اس سلسلے میں خصوصی تعاؤن کیا جس پر ہم ڈی سی صاحب اور ڈی ایف اے کے شکر گزار ہیں۔قاری جمال عبدالناصر صاحب نہ صرف ہمارے لئے دعا گو رہے بلکہ اخلاقی اور مالی تعاؤن فراہم کرتے رہے جبکہ سوشل میڈیا کے ذریعے بھی حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ چترال درویش میں ضلع چترال کے مختلف علاقوں سے نوجوان کھلاڑیوں کو شامل کیا گیا۔چترال درویش کی ٹیم میں چترال ٹاؤن کے علاوہ جوٹی لشٹ، ایون، دروش، ریشن اور کشم سے کھلاڑی شامل تھے، ان میں 90فیصد ایسے کھلاڑی تھے جو پہلی بار چترال سے باہر قومی سطح کے کسی بڑے مقابلے میں حصہ لینے کے لئے میدان میں اتر رہے تھے۔ قریبی دوستوں اور عزیزوں میں توصیف علی شاہ، سنیئر فٹبال پلیئر رشید عالم، آفتاب عالم، قاری شعیب، پی ٹی آئی کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری اور میرے کلاس فیلو فاروق علی شاہ، سابق ناظم وقار احمد، سابق ناظم ناصرا لدین، نوجوان سوسائٹی کے صدر عثمان خان، ینگ سٹار کے چیئرمین اسفندیار خان، میرے عزیز دوست انجینئر محبوب رحمانی، انجینئر شوکت علی اور افنان علی شاہ نے حسب استطاعت تعاؤن کرنے کے ساتھ ساتھ ہر لمحہ کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرتے رہے۔
پشاور شاہی باغ کے طہماس خان فٹ بال اسٹیڈئم میں چترال درویش کا پہلا مقابلہ ایگریکلچر یونیورسٹی کی ٹیم ”ایگریکلچر بریالی“ کے ساتھ ہوا جسمیں چترال درویش نے تین صفر سے کامیابی حاصل کی، اپنے دوسرے میچ میں صوابی جیگوار کے خلاف 2:1 سے کامیاب ہوتے ہی چھ پوائنٹس کے ساتھ گروپ اے کو ٹاپ کر لیا، آخری پول میچ دفاعی چیمپئن شنواری ستوری کے ساتھ دو دو گولوں سے برابر رہا یوں گروپ اے میں چترال درویش7پوائنٹس کیساتھ پہلے نمبر پر اور شنواری ستوری5پوائنٹس کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہا۔ کوارٹر فائنل میں چترال درویش کا مقابلہ گروپ ڈی کی ٹیم ”پختون پرائمز“ کے ساتھ ہوا جسمیں میچ دو دو گولوں سے برابر رہا تاہم پنلٹی ککس پر چترال کی ٹیم کو شکست ہوئی۔ اس ٹورنمنٹ کا سب سے دلچسپ مقابلہ یہ رہا۔ اس میچ کے آغاز سے قبل چترال کی ٹیم نے مد مقابل ٹیم کے تین کھلاڑیوں پر انکے عمر کے حوالے سے اعترازاٹھایا اور جواباً مدمقابل ٹیم نے چترال ٹیم کے کھلاڑیوں پر اعتراض کیا۔ جس پر میچ شروع ہونے سے پہلے ہی تحریری طور پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ میچ کے بعد کھلاڑیوں کی ویری فکیشن کی جائے گی اور اگر جیتنے والی ٹیم کے حوالے سے ضابطے کی خلاف ورزی ثابت ہوئی تو وہ اپنا جیتا ہوا میچ ہار جائے گا اور مد مقابل ٹیم کو جیت قرار دیا جائیگا۔ تاہم میچ کے بعد چترال درویش کے ذمہ داروں نے منتظمین کو آگاہ کیا کہ چونکہ میچ سے پہلے ہی یہ فیصلہ ہوا ہے کہ کھلاڑیوں کی جانچ کی جائے گی لہذا اب جیتنے والے ٹیم کے جن کھلاڑیوں پر ہمارا اعتراض ہے اس کی جانچ پڑتال کی جائے۔ اگلے دن یہ بات ثابت ہو گیا کہ واقعی میں مد مقابل پرائمز پختون کی ٹیم نے رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے ٹیم میں دو کے بجائے ڈیپارٹمنٹ کے چار کھلاڑیوں کو کھلایا ہے، اصولی طور پر اس میچ میں ضابطے کے مطابق چترال درویش کو کامیاب قرار دینا چاہئے تھا تاہم چترال کی ٹیم نے از سر نو میچ کھیلنے کو ترجیح دی، اگلے دن کوارٹر فائنل کا میچ دوبارہ کھیلا گیا اور چترال کی ٹیم نے مد مقابل کو 1کے مقابلے میں دو گولوں سے ہرایا، اس ٹیم میں بھی ایک چترالی پلیئر
کھیل رہا تھا۔ سیمی فائنل میں چترال درویش کی ٹیم نے اس لیگ کے سب سے فیورٹ ٹیم ”حیات آباد طریالی“ کو صفر کے مقابلے میں ایک گول سے ہرایا۔ چترال درویش کے کھلاڑی زاہد شاہ نے آخری لمحے میں گول کرکے اپنی ٹیم کو فائنل کا راستہ دکھایا۔ حیات آباد کی ٹیم میں کم سے کم چار نیشنل پلیئر کھیل رہے تھے، انکا ٹیم کیپٹن محمد رسول، ریاض، عالمگیر کے علاوہ پاکستان فٹ بال ٹیم کے گول کیپر ٹیم کا حصہ تھے۔ اس ٹیم میں تین کھلاڑیوں محمد رسول، عالمگیر اور شائران کا تعلق بھی چترال سے تھا۔
فائنل میچ میں چترال کا درویش اور دفاعی چمپئن شنواری ستورے ایک بار پھر آمنے سامنے آئے۔ شنواری ستوری کی ٹیم میں پاکستان نیشنل ٹیم کے نامور کھلاڑی موجود تھے۔ گروپ پوزیشن میں چترال درویش ٹاپ پر جبکہ شنواری اسی گروپ میں دوسرے نمبر پر تھی۔ حسب توقع فائنل میچ انتہائی دلچسپ اور سنسنی خیز ہوا۔ میچ کے پہلے ہی منٹ میں شنواری ستوری نے چترال کے خلاف گول سکور کرکے برتری حاصل کی مگر کھیل کے دوسرے منٹ میں چترال نے سید غازی کے فری کک کے ذریعے یہ گول برابر کر کے کھیل کو مزید دلچسپ بنایا۔ پہلے ہی ہاف میں شنواری کی ٹیم نے ایک گول سکور کرکے دو ایک سے میچ میں برتری حاصل کی جوکہ کھیل ختم ہونے تک برقرار رہی۔ چترال کی نوخیز ٹیم نے فائنل میچ میں ہزاروں تماشائیوں کی موجودگی میں جو کھیل پیش کیا وہ انتہائی متاثر کن تھا۔ میچ کے آخری پندرہ منٹوں میں چترال کی ٹیم نے مدمقابل شنواری ٹیم کو بے بس کرکے رکھدیا تھا تاہم گول سکور کرنے کے کئی مواقع ضائع ہوئے اور چترال کی ٹیم فائنل میں ہار گیا۔
اس ٹورنمنٹ میں چترال کے لوگوں نے اپنی ٹیم کو مکمل سپورٹ کیا۔ سوشل میڈیا کے ذریعے بھی پورا چترال اپنی ٹیم کا ساتھ دیتا رہا۔ یوں لگ رہا تھا کہ ورلڈ کپ میں پاکستان اور انڈیا کا کوئی میچ ہے۔ ہزاروں شائقین سوشل میڈیا کے ذریعے لائیو میچ دیکھ رہے تھے۔ پشاور میں مقیم چترالی تو یوں سمجھیں کہ اپنی ٹیم کے سپورٹ کے لئے امڑ آئے۔ فائنل کے دن ہزاروں کی تعداد میں تماشائیوں میں 80سے 90فیصد چترالی تھے جنہوں نے ماحول کو گرما دیا۔ دراصل چترال درویش کی جیت انہی چترالیوں کے نام ہے جنہوں نے اپنے نوخیز ٹیم کا حوصلہ بڑھایا۔
فائنل میچ دیکھنے کیلئے پشاور کے علاوہ چترال، لاہور، اسلام آباد، جہلم، اٹک، ایبٹ آباد،سوات اور دیر سے چترال درویش کے سپورٹرز پشاور آئے۔ نامور سیاسی شخصیت شہزادہ خالد پرویز، شہزادہ ہشام الملک نے اسلام آباد سے خصوصی طور پر فائنل میچ میں شرکت کی۔ شہزادہ خالد پرویز کو پرائز ڈسٹری بیوشن سرمنی میں خصوصی طور پر اسٹیج پر مدعوکیا گیا، انہوں نے چترال کی ٹیم کے لئے کیش پرائز کا بھی اعلان کیا۔ جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ کے نامور شخصیت قاری وقار چترالی صاحب لاہور سے خصوصی طور پر چترال کی ٹیم کو سپورٹ کرنے کے لئے کوارٹر فائنل، سیمی فائنل اور فائنل میں موجود رہے۔ چترال کی ٹیم کو سپورٹ کرنے کے لئے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں چترال بھائی موجود تھے، پہلے ہی د ن سے پشاور میں مقیم فیض الرحمن اور سراج رومی نے چترال کی ٹیم کو سپورٹ کرنے کا بیڑا اٹھایا، ٹیم کو ٹیکنیکل سپورٹ دینے کے لئے نامور فٹ بالر مزمل شاہ ہر میچ میں موجود رہے۔ ڈپٹی ہوم سیکرٹری سید مظہر علی شاہ اور کاری سے تعلق رکھنے والے ربنواز صاحب ٹیم کے ساتھ ساتھ رہے اور ٹیم کو مکمل سرپرستی فراہم کی۔ فائنل میچ کیلئے بردرام میجر محب الرحمن خصوصی طور پر اٹک سے تشریف لائے، دمیل ویلفیئر آرگنائزیشن کے صدر عصمت اللہ دمیڑی اپنی پوری کابینہ کے ساتھ ٹیم کے سپورٹ کے لئے آئے۔ پشاور میں موجود مدارس اور دیگر تعلیمی اداروں کے طلبہ بھاری تعداد میں اپنی ٹیم کو سپورٹ کرنے کے لئے آتے رہے۔ اس تمام ٹورنمنٹ کے دوران چترال کی ٹیم کو مسلسل سپورٹ فراہم کرنے والوں میں مولانا فیض محمد، مولانا احسان الحق وفا، فیض الرحمن، سراج رومی اور انکے ہمراہ بڑی تعدا د میں تماشائی شامل ہیں۔ انکے سپورٹ اور دعاؤں کے طفیل چترال درویش کی ٹیم قومی سطح کے ایک بڑے ایونٹ میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرکے تاریخ رقم کیا۔ ہم ان تمام حضرات کے مشکور ہیں، انکی محبتوں کے معترف اور مقروض ہیں، ان سب کا نام ہمیں معلوم نہیں مگر ہم نے انکی محبت کو دیکھ لیا،ہر ایک چترالی نے ہماری حوصلہ افزائی کی، ہمیں محبت دیا، ہمارے ساتھ تعاؤن کیا۔ہمیں چترال پر، چترالی ہونے پر اور چترال کے ہر دلعزیز لوگوں پر ہمیشہ فخر رہے گا۔ ہمیں صرف ایک افسوس ہے کہ ہم چترال کے اپنے گرانقدر اور ہر دلعزیز ہمدردوں کے خوشیوں کو دوبالا نہ کر پائے اور فائنل میچ ہار کر انکی خوشیو ں کو کم کردیا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہماری ٹیم نے کھیل ختم ہونے تک جان لڑادیا،اپنی بھرپور کوشش کی مگر جیت اور ہار کے فیصلے ہمارے ہاتھوں میں نہیں تھے، کوشش کے باوجود ہم اپنے چاہنے والوں کے ارمان کو پورا نہ کرپائے۔یہ افسوس ہمیشہ رہے گا مگر ہمیں چترال کے لوگوں پر ہمیشہ فخر ہی رہے گااور ہم آپ کے محبتوں کے قرضدار رہیں گے۔ ہم آپ کو اتنی خوشیاں نہ دے سکے جتنا پیار اور محبت آپ لوگوں نے دیا۔ آپ لوگ محبتوں کے امین ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیشہ آپ تمام خواتین و حضرات کو خوش اور آباد رکھے۔
چترال کے مقامی میڈیا نے چترال درویش کی ٹیم کو بھرپور انداز میں کوریج دیکر کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کی جس پرآئیڈیل کلب اور چترال درویش کے تمام کھلاڑی و ذمہ داران انکا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
اس شاندار لیگ کاانعقاد ایک تاریخی کام ہے اور اسکا سہرا یوتھ گلیم ویلفیئر آرگنائزیشن کے سر جاتا ہے۔ منتظمین نے ایک رنگارنگ اور بہترین ایونٹ کا انعقاد کرکے جہاں پشاور میں تفریح کا ایک موقع فراہم کیا وہیں نوجوان کھلاڑیوں کو اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کے لئے ایک پلیٹ فارم مہیا کیا جوکہ سپورٹس بالخصوص فٹ بال کی ترقی میں ایک اہم اقدام ہے۔ میں ان سطور میں یوتھ گلیم ویلفیئر آرگنائزیشن کے چیئرمین گل حیدر، اسامہ پراچہ اور ٹیم کے دیگر تمام ممبران کو اس کامیاب ایونٹ کے انعقاد پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اور انکا مشکور ہوں کہ انہوں نے اس پورے ایونٹ کے دوران چترال درویش کی ٹیم کے ساتھ انتہائی دوستانہ انداز میں تعاؤن کیا۔
مگر اس تمام ٹورنمنٹ کے دوران سب سے مایوس کن رویہ ہمارے عوامی نمائندگان کا رہا، 15دن تک چترال کی ٹیم پشاور میں مقیم رہی، پورے سوشل میڈیا اور نیشنل میڈیا میں چترال، چترال کی گونج سنائی دیتا رہا ہے مگر نہ رکن قومی اسمبلی نے چترال کی ٹیم کا پوچھا،نہ اراکین صوبائی اسمبلی مولانا ہدایت الرحمن اور نہ ہی ڈیڈک چیئرمین وزیر زادہ نے چترال کی ٹیم کا حال پوچھنا یا انکی حوصلہ افزائی کے لئے گراؤنڈ میں آنا گوارا کیا جوکہ یقینا مایوس کن امر ہے اور اس بات کا ثبوت ہے کہ کھیلوں کی ترقی اور نوجوانوں کی سرپرستی ہمارے منتخب نمائندگان کے ترجیحات میں شامل نہیں ہیں یا پھر انہیں ان چیزوں کی اہمیت اور ضرورت کا احساس نہیں جوکہ بدقسمتی کی انتہا ہے۔
انشاء اللہ جب تک پشاور لیگ جاری رہیگا تب تک چترال درویش کی ٹیم لیگ میں حصہ لیتا رہیگا۔