داد بیداد۔۔فاضل آمدنی۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Print Friendly, PDF & Email

اخبارات میں اس قسم کی خبریں تو اتر سے آرہی ہیں کہ حکومت کے پاس فاضل آمدنی جمع ہو گئی ہے اس کے باو جود ملکی معیشت میں بہتری کے آثار نظر نہیں آتے پشاور ہائی کورٹ نے بھی اس کو تشویشناک قرار دیا ہے وفاقی حکومت اس پر غور کر رہی ہے کہ فاضل آمدنی آنے کے باو جو دملکی معیشت کیوں بہتر نہیں ہو رہی؟ معا شی ما ہرین زمانہ قدیم میں بھی اور ما ضی قریب میں بھی ایک معمولی اصول کا ذکر کیا کرتے تھے شعیب احمد اور غلام فاروق سے لیکر ڈاکٹر محبوب الحق اور اسحاق ڈار تک سب کا یہی کہنا تھا کہ ”سر مایے کی گر دش“ سے معیشت میں بہتری آتی ہے سر مایہ ایک جگہ جمع ہو کر دا تیں با تیں تقسیم نہ ہو تو معیشت بہتر نہیں ہو تی فا ضل امدنی کے حوالے سے جو خبر یں اخبارات کی زینت بنی ہیں یہ پٹرو لیم مصنو عات، سٹیل ملز، واپڈا یا پاسکو سے حا صل ہونے والی فاضل آمدن نہیں ہے 2018-19کے بجٹ میں پبلک سیکٹر ڈیو لپمنٹ پرو گرام (GSDP) کے تحت NFCایوارڈ کی رو سے صو بوں کو جو سر مایہ فراہم کیا گیا تھا۔صو بوں نے ما لی سال کی پہلی ششما ہی میں اس میں سے 600ارب روپے کی بچت کر کے وفاق کو واپس کر دیا ہے یہ فا ضل آمدنی ہے غریب صو بہ بلو چستان نے بھی 75ارب روپے سرنڈر کر دیئے خیبر پختونخوا نے 90ارب روپے سرنڈر کردیئے وفاقی حکومت امیر ہو گئی مگر معیشت پر اس کا کیا اثر ہوا؟ صر ف دو مثا لیں کا فی ہیں گذشتہ ششما ہی کے دوران کا روں کی فروخت میں 40فیصد کمی آئیگی دو بڑی کمپنیوں نے اپنے پلانٹ بند کردیئے مزدوروں اور کاریگر وں کو فارغ کر کے گھر بھیجدیا ٹریکٹروں کی ما نگ میں 50فیصد کمی دیکھنے میں آئی سب سے بڑی فرم ملیسی فر گوسن اپنی فیکٹری کو تا لا لگا کر مزدوروں اور کا ریگروں کو بے روز گار کر دیا اس خبر کا فا ضل آمدنی سے گہرا تعلق ہے جب ملک میں پبلک سیکڑ ڈیو لپمنٹ پرو گرام کے تحت 10کھرب روپے خرچ ہوتے ہیں ان میں سے کم از کم 4کھرب روپے ملکی پیدا وار کے کار خانوں کو ملتے ہیں یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں بلکہ سادہ فار مو لا ہے اگر 5کروڑ روپے تر قیا تی سکیم پر خرچ ہو تا ہے تو اس رقم کا 60فیصد مختلف مدات (heads) کے تحت لو گوں کے پا س آتا ہے کوئی ٹھیکہ لیتا ہے کوئی مزدوری کر تا ہے یہ رقم ڈرائیور اور ہو ٹل والے کو بھی ملتی ہے بینک میں بھی آتی ہے زندگی کے ہر شعبے کے لوگ اس رقم سے استفادہ کرتے ہیں اس رقم کا 40فیصد تعمیرانی میٹریل پر لگتا ہے براہ راست کا رخا نوں اور ٹرانسپورٹروں کے اکا ونٹ میں جا تا ہے جو پیسہ عوام کو ملتا ہے وہ ان کو قوت خرید میں اضافہ کر تا ہے وہ ٹریکٹر بھی خرید سکتے ہیں موٹر بھی خرید سکتے ہیں یہ سر مایہ ملک میں گرد ش کر کے معیشت کو مضبوط کر تا ہے معیشت کی بہتری کا راز صرف سر مایے کی گردش میں مضمر ہے غلام اسحاق خان جب سٹیٹ بینک کے گور نر تھے وہ ایک مثال دیا کرتے تھے ایک بھکا ری جھولی پھیلا کر بازار میں گھومتا ہے اگر 100بندے ایک ایک روپیہ اس کی جھولی میں ڈالیں تو بھکاری کے پاس 100روپے آجائینگے شام کوبھکاری بال بچوں کے لئے کھانے پینے کی ضروری چیزیں خرید ے گا تو 100روپے کی یہ رقم کم از کم 10تاجر وں کے پا س جائیگی اس طرح معمولی سرمایے کا فائدہ سب کو پہنچتا ہے اس لئے قرآن پا ک کا معاشی اصول بھی یہی ہے کہ دولت کو ایک جگہ ٹھہرا کر مت رکھو اس کو تقسیم کرو، گردش میں ڈالو تو معیشت میں بہتری آئے گی یہ بات خوش آئیندہے کہ حکومت کے پاس فاضل آمدنی آگئی ہے اگر اس کو اگلی ششما ہی میں تر قیاتی سکیموں پر لگا یا گیا تو معیشت میں ضرور بہتری آئیگی