اخبار اٹھا ؤ تو آپ کو 30سال پر انی خبر آج کی تا زہ خبرلگتی ہے یہ اخبار نو یسوں کا خبر نگاری میں جدت اور اختراع کی کمیا بی پر دلا لت کرتے ہیں ایسا لگتا ہے گویا الفاظ ختم ہو گئے ہیں نئی لغت گم ہو گئی ہے 30سال پہلے لکھا جا تا تھا ”وزیر اعظم نے نوٹس لے لیا“ اس کے ساتھ متعلقہ بیا نیہ بھی ہو تا تھا کبھی مہنگائی کا نوٹس لیا کبھی بے قا عد گیوں کا نو ٹس لے لیا کبھی کرپشن کا نو ٹس لے لیا نو ٹس لینے کے بعد کیا ہوا یہ خبر نگار کو پتہ نہیں ہوتا چنا نچہ ہر روز ”نو ٹس لے لیا“ کا بیا نیہ آجا تا ہے اسی طرح کا ایک جملہ ہے جنازہ اٹھتے ہی گاوں میں کہرام مچ گیا اس پر ایک اور جملے کا اضا فہ کیا جا تا ہے، ہر آنکھ اشکبار تھی سوال پیدا ہو تا ہے کہ غم اور رنج کی کیفیت کو قارئین تک پہنچا نے کے لئے 30سا لوں سے یہی دو جملے کیوں استعمال ہو رہے ہیں کیا متبا دل الفاظ اور جملے اردو میں دستیاب نہیں ہیں؟ کیا ہم نئے الفاظ کے ساتھ دوسرا زریعہ اظہار تراشنے سے معذور ہیں ایک دوست نے توجہ دلا ئی ہے کہ ایوان صدر اور گور نر ہا وس سے کسی اہم شخصیت کی وفات پر جو تعزیت نا مہ جا ری ہو تا ہے وہ 70سال پرانا ہے اس میں مر حوم کی وفات پر دکھ کا اظہار کرنے کے بعد لکھا جا تا ہے کہ تحریک پا کستان میں مر حوم کا کردار ہمیشہ یا د رکھا جائے گا اور ان کی وفات سے پیدا ہونے والا خلا کبھی پُر نہیں ہو گا حا لانکہ مر حوم نے تحریک پا کستان میں ذرہ برا بر حصہ نہیں لیا اور ان کی وفات سے کوئی خلا پیدا نہیں ہوا اگر خدا کی قدرت کا ملہ سے مر حوم یہ تعزیت نا مہ سُنے گا تو حیران رہ جائے گا کہ کون مرا ہے اور کس کے مرنے پر اس طرح کی تعزیت کی جا رہی ہے اس میں صدر اور گورنر کا کوئی قصور نہیں 1948ء میں کسی افیسر نے گور نر جنرل کی طرف سے کسی اہم شخصیت کی وفات پر تعزیت نا مہ لکھا تھا وہ شہ پارہ اب تک مو جود ہے اور دہرا یا جا رہا ہے بلکہ اس کی جگا لی کی جارہی ہے اسی طرح ایک بیا نیہ نچلی سطح پر ڈپٹی کمشنر یا ڈسٹرکٹ پو لیس افیسر کی کھلی کچہری والی خبرمیں بار بار آتا ہے خبر نگار لکھتا ہے کہ عوام نے شکا یات کے انبار لگادیے خبر نگار آگے کی خبر نہیں لگا تا کہ اس انبار کا انجام کیا ہوا؟ شکا یا ت کا یہ انبار 1990سے لگا ہوا ہے اس انبار کو کسی نے پو چھا بھی نہیں ڈپٹی کمشنر یا ڈسٹرکٹ پو لیس افیسر عوامی شکا یا ت کا کیونکر ازا لہ کرینگے وہ اگر 16۔ ایم پی او کے تحت کسی ملزم کو گرفتار کریں سول جج اس کو اگلے دن رہا کردیتا ہے پُل، سڑک اور نلکا اُن کے دائرہ اختیار میں نہیں عوام آؤ دیکھتے ہیں نہ تاؤ جو بھی آتے اس کیسامنے شکا یا ت کے انبار لگا دیتے ہیں جیل خا نہ جا ت کا وزیر دورے پر آئے تو سکول کا مطا لبہ کرتے ہیں، وزیر سیا حت دورے پرآئے تو ڈسپنسری ما نگتے ہیں ایک اور مقبول بیا نیہ سیا سی رہنما ووں کی طرف سے آتا ہے قو می سطح کے لیڈر بھی کہتے ہیں کہ ہماری پارٹی میں کالی بھیڑوں کے لئے کوئی جگہ نہیں یو نین کونسل کی سطح کے لیڈر بھی کہتے ہیں کہ ہماری پارٹی میں کا لی بھیڑوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہم حیراں ہیں کہ کس کا لی بھیڑوں کو ان کی پارٹی میں آنے کی تمنا ہے کونسی کا لی بھیڑہے جس کو اِن کی پارٹی میں آنے کی دیرینہ ارزو ہے جس کا گلا گھونٹنا مقصود ہے ایک سینئر صحا فی نے یہ کہ کر ہماری مشکل آسان کر دی کہ اس بیا نیہ میں کچھ محذوف بھی ہو تا ہے یعنی کہنے والا کہنا چاہتا ہے لیکن کھلے الفاظ میں نہیں کہہ پا تا دبے الفاظ میں کہتا ہے جو بین السطور میں نظر آتا ہے مثلاً آپ کا لی بھیڑ وں سے پہلے ”میرے سوا“ لگادیں یا یوں پڑھیں کہ میرے ہوتے ہوئے دوسری کا لی بھیڑوں کی گنجا ئش نہیں ان گھسے پٹے جملوں پر حال ہی میں ایک نئے جملے کا ضا فہ ہوا ہے فواد چوہدری کا بیان آتا ہے کہ بعض وزراء احمقانہ با تیں کرتے ہیں فیصل واوڈا کا بیان آتا ہے کہ بعض وزراء کی احمقانہ حر کتوں سے حکومت کو بد نا می ہوتی ہے شیخ رشید کا بیان آتا ہے کہ حکومت کو اپو زیشن سے کوئی خطرہ نہیں ہماری پارٹی میں ایسے لو گ مو جو د ہیں جو حکومت کے لئے بد نا می کا با عث بنتے ہیں فیاض الحسن چو ہان کا بیان سب سے زیا دہ دلچسپ ہے وہ کہتے ہیں کہ وزراء کو اپنی زبان کا خیال رکھنا چا ہئیے سینئر صحا فی کے بقول ان نا بغہ روز گار لیڈروں کے بیان کے ساتھ بھی محذوف حصے کو کھلے الفاظ میں ملا نا چا ہتے مثلاً میری طرح کا سابقہ تیر بہدف ثا بت ہو تا ہے آپ فواد چوہدری،فیصل واوڈا، شیخ رشید اور فیاض الحسن چو ہان کے بیان میں منا سب جگہ پر میری طرح کا سا بقہ لگا دیں تو کھلے الفاظ میں اس بیان پر مطلب اور مفہوم سمجھ میں آتا ہے لیکن پھر بھی اخبار بینوں کا وہ مسئلہ حل نہیں ہوتا جو یکسا نیت کی وجہ سے پیدا ہوا تھا کیونکہ اس میں بھی یکسا نیت ہے ہمارے ایک دوست نے مشورہ دیا ہے کہ یکسا نیت کی اکتا ہٹ سے بچنے کے لئے غم اور خوشی کا نیا بیانیہ تلا ش کریں ہر جگہ کہرام مچ گیا مت لکھیں کہیں لو گوں میں غم کی لہردوڑ گئی لکھیں کسی جگہ لو گ غم سے نڈھا ل ہو گئے کسی جگہ آنکھیں پُر نم ہوگئیں لکھ کر اپنا شوق پورا کریں ہم نے کہا وہ تو ٹھیک ہے ایوان صدر اور گورنر ہا وس سے جاری ہونے والے تعزیت نا مے کا کیا علا ج کریں؟ دوست خاموش ہو گئے ہم نے کہا خامو شی بہتر ہے کیونکہ یکسا نیت کا چر چا ہے۔
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات