داد بیداد۔۔کمر توڑ مہنگا ئی کے حق میں۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Print Friendly, PDF & Email

کمر توڑ مہنگائی کے حق میں سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ قوم مشکل فیصلے کر رہی ہے اور مشکل فیصلے کرتے وقت ایسا ہوتا ہے شعیب بن عزیز کا لا جواب مصرعہ یاد آتا ہے ”اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں“ شکر کا مقام ہے کہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ محمو د خان نے مہنگائی کی نئی لہر کا نوٹس لیتے ہوئے صوبے کے 34اضلاع کی پوری انتظامیہ کو ہدایت کی ہے کہ مہنگائی اور ملاوٹ کے خلاف سخت کاروائی کی جائے اور ہر کاروائی کی رپورٹ اوپر تک بھیجی جائے مہنگائی کیا ہے؟ دراصل قوت خرید میں کمی کو مہنگا ئی کہتے ہیں مزدور کی 4دن کی مزدوری 2000/روپے تھی آٹے کا ٹھیلا 1800/روپے میں آتا تھا مزدور کو ایک مہینے سے مزدوری نہیں ملی آٹے کا تھیلا 2300روپے کا ہو گیا مزدور کے پاس قوت خرید نہیں ہے وہ گھر آکر بیوی بچوں کو کہتا ہے آٹا مہنگا ہو گیا اسی طرح ہر گھر میں بے رزگاری، کاروبار کے مندے، تر قیاتی منصو بوں کی بندش، تنخوا ہوں کی عدم ادائیگی اور دیگر عوامل کی وجہ سے قوت خرید گھٹ رہی ہے جوں جوں قوت خرید میں کمی آتی ہے اس کمی کے ساتھ مہنگا ئی کا رونا رویا جا تاہے ایک وقت تھا پشاور کے گھنٹہ گھر، چوک یادگار،شعبہ بازار اور فوارہ چوک میں گنیتی،بیلچہ اور برش لیکر مزدور ی کی تلا ش میں آنے والے صبح 9بجے سے پہلے کام پر لگ جاتے تھے اب یہ لوگ دو پہر 12بجے تک انتظار کے بعد دیہاڑی کے بغیر گھروں کو لوٹ جاتے ہیں اسلام اباد کے آب پارہ، پشاور موڑ اور کراچی کمپنی میں مزدوری کی تلاش میں آنے وا لوں کا یہی حا ل ہے مہنگا ئی کے کمر توڑ ہونے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ حکومت کے بے جا اعلا نا ت سے مہنگا ئی کی لہر آتی ہے مثلا ً، گھی، چینی، گندم، صابن،ٹوتھ پیسٹ اور لپ سٹک پر ٹیکس لگنے کی خبر آگئی اب ٹیکس لگنے والا مال کارخانے سے باہر نہیں آیا تھوک اور پر چون وا لوں نے نیا نر خنا مہ لگوا لیا گا ہک پوچھتا ہے تو جواب ملتا ہے کہ خبروں میں آیا ہے یہ آج کا اخبار ہے دیکھو خود فیصلہ کرو ہمارے استاد گرامی مو لا نا اورنگ زیب المعروف تبر گئے ملّا عوامی مقرر اور واعظ تھے وہ کہا کرتے تھے جب بجٹ میں کسی چیز پر سے ٹیکس اٹھا یا جاتا ہے اُس چیز کی سستی ہونے کی خبر ایک ماہ بعد بازار میں پہنچتی ہے مگر جب کسی چیز پر ٹیکس لگا یا جا تاہے تو اُس کا مہنگا ہو نا اُسی لمحے ایک گھنٹے کی تاخیر کے بغیربازار والوں کو معلوم ہو جاتا ہے جب آپ کسی چیز کی قیمت میں کمی کی اطلا ع تا جر کو دیتے ہیں تو وہ ڈھٹا ئی کے ساتھ کہتا ہے کہ نیا مال نہیں آیا یہ پرانا مال ہے مگر جب آپ کو سستی چیز منہگے دا موں بیچتا ہے تو کسی ہچکچا ہٹ کے بغیر کہتا ہے کہ خبروں میں آیا ہے اخبار میں آیا ہے یہ بازار کا دہرا معیار ہے اور دہرا معیا ر اس لئے ہے کہ انتظا میہ کے پاس مہنگا ئی پر قا بو پانے کی حکمت عملی نہیں ہے حکمرانوں کے پاس عزم اور ارادہ نہیں ہے پشاور کے جن شہریوں نے 1970کا عشرہ دیکھا ہے ان کو اچھی طرح یاد ہے کہ سر فراز خان مجسٹریٹ درجہ اول کے نا م کا ڈنکا بجتا تھا اُس کے پاس ہر بازار میں ہر مال کی طلب اور رسد کا ریکارڈ ہو تا تھا وہ آڑ ھت اور تھوک فروش سے لیکر پر چون فروش تک سب کا ریکارڈ رکھتا تھا اُس کا قول تھا ”قانون بے لحا ظ ہو تا ہے لو گ بے چہرہ ہوتے ہیں“ وہ قانون کے سامنے امیر و غریب، دوست اور رشتہ دار کی پہچان سے انکار کرتا تھا یہ بات نہیں تھی کہ اس لا چار، غریب ملزم پر ترس کھا ؤ یا اس دولت مند اور امیر ملزم کی عزت کا خیال کرو،یا یہ اپنا بندہ ہے اس کو مت چھیڑ و مجسٹریٹ سر فراز خان نے اگر کسی کو 1972میں 50روپیہ جر مانہ کیا اور وہ سفارش لے آیا تو جر مانے کو دگنا کرتا تھا پھر سفارش لے آیا تو دگنے کو پھر دگنا کرتھا اس طرح 50روپے کا جر مانہ 200روپے تک پہنچتا تھا ایک ما ہ کی قید 6ماہ تک جا پہنچتی تھی اس لئے لو گوں نے سفا رش لانے سے تو بہ کیا اسی طرح دوسری جنگ عظیم کے زمانے کا مشہور واقعہ فائلوں میں محفوظ ہے 10اکتوبر 1940ء کو صو بہ سر حدکی ریا ست چترال میں اسسٹنٹ پو لیٹکل ایجنٹ کو شکا یت ملی کہ بازارمیں خشک چائے پر ایک آنہ فی کلو کا اضا فہ ہو اہے انگریز افیسر نے انکوائری کا حکم دیا رپورٹ ملی کہ جنگ کی وجہ سے سمندری جہاز کو بندر گاہ تک آنے میں زیا دہ وقت لگا سر کار نے کرایہ بڑھانے کی اجا زت دی اور وہی کرایہ ایک آنہ فی کلو اس مال پر لگا یا گیا ہے انگریز نے حکم دیا مال کا سٹاک چیک کرو مو جود ہ سٹاک ختم ہونے تک ایک آنہ فی کلو اجا زت دیدو سٹاک ختم ہونے کے بعد پرانا نرخ نا مہ لگاؤ اس کا نام انتظا میہ کی صلا حیت اور قا نون کی حکمرانی ہے آج کی مہنگا ئی کا ذمہ دار سابقہ حکمران یا مو جودہ حکمر ان نہیں مقا می انتظا میہ ہے 2001ء کے ڈیو لوشن پلان میں انتظا میہ کی طا قت کو مفلوج کر دیا گیا پھر 2002کے پو لیس آر ڈر نے انتظا میہ کے پر مزید کاٹ دیے آپ 1960اور 1970کے عشرے کی انتظا میہ لے آئیں، کم از کم 1990کے عشرے کی انتظا میہ لے آئیں، مجسٹریٹ کو سر فراز خان والے اختیا رات دے دیں ایم این اے، ایم پی اے، ضلع ناظم کی مدا خلت کو روکیں پھر دیکھیں م مہنگا ئی کا جن قا بو میں آتا ہے یا نہیں؟
وہی نا محکمی،وہی دیر ینہ بیماری دل کی
علاج اس کا وہی آپ نشاط انگیز ہے ساقی