میرٹ گئی تیل لینے۔۔ شمس الرحمن تاجک

Print Friendly, PDF & Email

ہم بحیثیت قوم قحط الرجال کے اس دور سے گزر رہے ہیں کہ کچھ بھی کرو، کسی کو بھی منتخب کرو، کسی پر بھی بھروسہ کرو، نتیجہ صفر ہی نکلتا ہے۔ ہمارے نمائندے خصوصاً چترال کے منتخب نمائندے اکیسویں صدی میں 1033ء کے دورانیے کی سیاست کررہے ہیں۔ ان کو یہ بتانے والا کوئی نہیں کہ تاریخ اور وقت جب بدل جائے تو سیاست کے طریقے اور افراد کے اذہان بھی بدل جاتے ہیں۔ اگر اس کارسیاست کا حصہ رہنے شوق ہے تو طور طریقے بھی معاشرے کے افراد کے ذہنوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنانے چاہئے۔ لوگوں نے آپ کو دوسروں کی عزتیں اچھالنے کے لئے ووٹ نہیں دیا ہے۔ نہ اپنی عزت سر عام نیلام کرنے سے آپ کے فالوورز کو کسی سکون کا احساس ہوتا ہے۔مگر ہمارے معاشرے کا المیہ یہی ہے کہ معاشرے کا غریب طبقہ اپنے مسائل کے حل کے لئے جس کا بھی انتخاب کرتا ہے وہ مسائل کے حل کے بجائے مسائل پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ بہت ہی مشکل دور ہے۔آئے روز برسر میڈیا چترال کے ایک بیٹے کو اقلیتی رکن اس تضحیک سے کہہ رہے ہوتے ہیں جیسے وہ اچھوت ہو۔ کاش وہ اقلیتی رکن اکثریت والوں کے چنگل سے آزاد ہوتا۔ کاش اس کے اردگرد برہمنوں کی وہ ذات نہیں ہوتی جو اس کو ہمیشہ یہ مشورہ دے رہا ہوتا ہے کہ صرف ہمارا کام ہونا چاہئے۔ ووٹ دینے والے پیدا ہی اس کام کے لئے ہوئے ہیں ان کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہونا چاہئے۔کاش وزیر زادہ ”برہمنوں“ کے اس ”اچھوتوں“ والی ذہنیت والے لوگوں کے چنگل سے آزاد ہوتا۔
کم از کم اس بات کا تو خیال رکھیں کہ آپ اس پارٹی کے دور میں برسر اقتدار ہیں جو آئے روز کوئی نہ کوئی ایسی ہنگامہ خیزی اور بچپنابرپا کرنا اپنے اوپر لازم کرچکے ہیں جس سے عمران خان کی حکومت اور پارٹی کئی کئی دنوں تک منہ چھپائے پھیرتی رہتی ہے۔ جب یہ لوگ اپنے آپ کو بخشنے کو تیار نہیں ہیں تو پھر آپ ان کے خلاف بلکہ میرٹ کے خلاف پریس کانفرنس کیسے کرسکتے ہیں۔ کاش آپ اس اقلیتی رکن کو ٹارگٹ کرنے کے بجائے میرٹ کے قتل عام کو ٹارگٹ بناتے۔ بجائے چترال کے مسائل کو زیربحث لانے کے،فضول میں ایک سیدھے سادے، شریف النفس اور تعلیم یافتہ آدمی کو زچ کرنے میں لگے ہوئے ہیں بلکہ تہیہ کرچکے ہیں کہ خود تو کچھ کرنے سے ویسے بھی فارغ ہیں چترال کے کسی اور بیٹے کو بھی ہر گز کچھ کرنے نہیں دیں گے۔ آپ کی اس منطق سے کوئی ذی الشعور انسان کیونکر متفق ہوسکتا ہے۔وزیر زادہ کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ کالاش قبیلے سے تعلق رکھتا ہے۔وہ لوگوں کی کسی کمزوری سے فائدہ اٹھاکر یا جذبات سے کھیل کر اقتدار کی کرسیوں تک پہنچنے کے بجائے اپنی محنت اور لگن سے اس مقام تک پہنچا ہے۔ وہ میرٹ کا منہ بولتا ثبوت ہے اس لئے ہم سب چترال کے باسیوں کو اس سے خدا واسطے کا بیر ہے۔
اس سارے منظرنامے میں سب سے تکلیف دہ، سب سے زیادہ دل آزاری والا منظر پی ٹی آئی کے ضلعی صدر کا پریس کانفرنس تھا۔ حالانکہ اس میں بہت ساری باتیں مفاد عامہ کے سلسلے میں بھی موجود تھیں مگر پی ٹی آئی کے صدر کا برسر میڈیا یہ اقرار انتہائی دردناک تھا کہ 13 افراد کو ایم ایم اے کے ایم پی اے نے ریکامنڈ کیا تھا اور 5 افراد کو پی ٹی آئی کے ایم پی اے نے۔ ساتھ میں یہ اقرار کہ انہیں بھی 42 ہزار ووٹ ملے تھے۔ سوال بنتا ہے محترم کہ آپ کو یہ 42 ہزار ووٹ حقداروں کو ان کا حق دینے کے لئے ملا تھا یا اپنے لوگوں کو ریکامنڈ کرنے کے لئے۔آپ کوئی تبدیلی کی بات کیا کرتے تھے، میرٹ کی بات کیا کرتے تھے۔ وہ سب دکھاوا تھا اقتدار حاصل کرنے کے لئے؟۔ کیا یہ پاکستان یا چترال کی تاریخ کا آخری الیکشن ہے؟۔ آپ بھی اپنے من پسند افراد کو عوام کے پیسوں سے چلنے والے اداروں میں ملازمتیں دلوا رہے ہیں اور ایم این اے بھی اسی کے لئے واویلا مچا رہا ہے تو آپ میں اور ان میں کیا فرق ہے۔ آپ ہمیں بتا سکتے ہیں کہ اگلے الیکشن میں ہم مولانا کو چھوڑ کر آپ کو کیوں ووٹ دیں؟ آپ میں اور ان میں آخر کیا فرق ہے۔ ہم آپ کا انتخاب کریں یا کسی بھی پارٹی کے کسی بھی فرد کا۔ اس وطن یا وطن داروں کو کیا فرق پڑنے والا۔ آپ برسرعام اقرار کرکے وہی کچھ کررہے ہیں جو وہ لوگ چھپ چھپا کر کررہے تھے۔بھرم تو تھا کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ جرم ہے۔ عام آدمی کا حق کھایا بھی جا رہا تھا میرٹ کا قتل عام اگر ہو بھی رہا تھا تو کم از کم جرم، چوری یا ڈکیٹی سمجھ کر کیا جارہا تھا آج تک کسی نے اتنے واشگاف الفاظ میں اپنے جرائم کا اقرار تو نہیں کیا تھا۔آپ کیوں سمجھتے ہیں کہ آپ کو سات خون معاف ہیں۔
اس مائنڈ سیٹ کے رہنماؤں کی موجودگی میں اپنے بچوں کو ہنرمند اور تعلیم یافتہ بنانے کا کیا فائدہ۔ ان کی تعلیم کے لئے محنت مزدوری کرنے سے اچھا نہیں ہے کہ کسی سیاسی بندے کی چمچہ گیری شروع کی جائے تاکہ وقت آنے پر وہ میرے نالائق ترین بچے کو کسی اچھے پوزیشن کے لئے ریکامنڈ کرے۔ آپ بھی اس ٹرینڈ کو پروموٹ کرنے میں لگے ہوئے جس کے خاتمے کا نعرہ لگا کر آپ نے اقتدار حاصل کیا ہے۔ اگر چوری کی بھی ہے تو کم از کم ان 42 ہزار افراد کے سامنے اقرار کرکے ا ن کی دل آزاری سے باز رہتے۔ آپ کی حمایت میں بولنے والے افراد کے پاس آپ کی حمایت کا اب کیا جواز باقی رہتا ہے۔کیوں آپ نے صرف 5 افراد کو ان 42 ہزار افراد پر فوقیت دی۔آپ کے 22 سال کی ریاضت کا انجام کیا یہی تھا کہ جب اقتدار ملے تو اپنے من پسند افراد کو نوازنا شروع کرو۔ میرٹ گئی تیل لینے۔