داد بیداد۔۔ریڑھ کی ہڈی۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

Print Friendly, PDF & Email

بیورو کریسی یا افسرشاہی کو ملکی نظام میں ریڑھ کی ہڈی تصوّر کیا جاتا ہے با بائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے ستمبر 1947ء میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سول سروس کے افیسروں کو نصیحت کی”تم اس ملک کے لئے کام کرتے ہو کسی فرد واحد کے نوکر نہیں ہو سیاسی حکومتیں آتی جاتی ہیں تم کسی کی پرواہ مت کرواپنے فرائض ملکی دستورکے مطابق بلا خوف و خطر انجام دیتے رہو“اس کے بعد قائد اعظم نے فاشسٹ سیاستدانوں کے لئے تلخ جملے استعمال کئے جو کتابوں میں آئے ہیں آج یہ بات ایک خبر پڑھ کر یاد آگئی خبر میں بتایا گیا ہے کہ حکومت اسلام آباد کی کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھار ٹی سمیت اہم عہدوں پر سول بیورو کریسی کی جگہ پرائیوٹ سیکٹر سے لوگوں کو لاکر انتظامی امور اُن کے حوالے کرنا چاہتی ہے خیبر پختونخوا میں PEDOاورEEFکی سربراہی پرائیوٹ سیکٹر سے لائے ہوئے لوگوں کو سونپ دینے کا تجربہ ناکام ہوا، نیو بالاکوٹ سٹی کا کام باہر سے لائے ہوئے لوگوں کو دینے کاتجربہ ناکام ہوا،ڈیر اسٹر مینجمنٹ کا کام باہر سے لائے ہوئے لوگوں کو دینے کا تجربہ ناکام ہوا، واپڈا کی سربراہی باہر سے لائے ہوئے لوگوں کو دینے کا تجربہ ناکام ہوا، پی آئی اے اور پاکستان سٹیل کا سربراہ جب بھی باہر سے لایا گیا بیڑہ غرق ہوا لیکن ہم نے قسم کھائی ہے کہ ماضی سے سبق حاصل نہیں کرینگے ایک دبنگ شخص وزیر اعلیٰ تھے تو کئی افسروں کو کھڈے لائن لگایا تھا ایک افسر کواس بات پر کھڈے لائن لگایا گیاکہ وہ سینئر ڈاکٹر کی جگہ باہر سے کسی شخص کوصوبے کے سب سے بڑے ہسپتال کا چیف ایگزیکیٹولگا نے کے مخالف تھے سکر ٹری زراعت کو اس لئے کھڈے لائن لگایا گیا کہ انہوں نے زرعی زمینوں پر اراکینِ اسمبلی کی ذاتی ہاوسنگ سکیموں کی مخالفت کا خطرہ مول لیا تھا انہوں نے کابینہ کوبریفنگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ صوبے میں 75 فیصد زمینوں پر کاشت نہیں ہوتی صرف25فیصدزمین کاشت کے قابل ہے جس میں زراعت ہوتی ہے باغات لگائے جاسکتے ہیں مویشی پالنے کے لئے چارہ ملتا ہے اس زمین پر ہا ؤ سنگ سکیمیں اور سرکاری عمارتیں بنانے کا سلسلہ بند نہ کیاگیا تو صوبے کا زرعی مستقبل تاریک ہوجائے گا یہ بات اہل سیا ست کو ناگوار گزری اُس سکرٹری کو منظر سے غائب کردیا گیا دراصل قائداعظم نے جو کچھ کہااس کا خلاصہ اورمنشابھی یہ تھا کہ سیاستدان اور ڈکٹیٹر اس ملک میں فاشنر م لانے کی کوشش کرینگے فاشزم کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر بیوروکریسی کو کھڑا ہوناہے قانون کی بالا دستی کے لئے ہر وقت کمر بستہ رہناہے ڈکٹیٹروں کو سب سے بڑی شکایت یہ ہوتی ہے کہ بیورو کریسی ہماری راہ میں رکاوٹ بنتی ہے وجہ یہ ہے کہ بیوروکریسی کے پاس قانون ہے رولز آف بزنس ہے ریاست کا دستور ہے 1993ء میں ایک سیاست دان کو ماہی پروری کا وزیر بنایا گیا موصوف دستخط کی جگہ کاغذ پر انگوٹھے کانشا ن لگایا کرتے تھے حلف اٹھانے کے بعد دفتر میں آئے تو انہوں نے اپنے پرائیوٹ سکرٹری کوحکم دیا کہ اب میری تصویر اس شخص کی جگہ لگادو پی ایس نے کہا یہ بابائے قوم کی تصویر ہے وزیر موصوف نے فرمایا”اب اس کی جگہ میں نے حلف اُٹھایا ہے“پی ایس نے دو دنوں تک جدوجہد کی کہ وزیر موصوف مان جائیں جب نہیں مانے تو وزیر اعلیٰ سے شکایت کرواکر ان کو منوایا گیا بات انہوں نے مان لی مگر پرا ئیویٹ سیکرٹری کو حکم عدولی کی سزا دے کر او ایس ڈی بنا دیا گیا فیلڈ مارشل ایوب خان اور جنرل یحییٰ خان نے بھی بیوروکریسی کو اپنے راستے میں سب سے بڑی رکاؤٹ قرار دے کر سول سر وس کے افیسروں سے دل کھو ل کر بد لہ لیا تھا مگر یہ سروس بہت سخت جان نکلی یہاں تک کہ جنرل مشرف کا دور آیا نز لہ پھر سول سروس کے اوپر آگرا اس د ور میں 800 سنیئر اور قابل افیسروں نے قبل از وقت ریٹا ئر منٹ لے لی یا استعفیٰ دے کر اذیت، کو فت اور ٹار چر سے جان چھڑائی قیام پاکستان کے وقت انگر یزوں نے آزاد ہو نے والے دونوں ملکوں کو مضبوط، مستحکم اور طاقتور سول سروس کا ڈھا نچہ دید یا تھا پڑوسی ملک بھارت نے اُس ڈھا نچے پر مزید طاقتور اور مضبو ط عمارت کھڑی کی ہمارے ہاں جو بھی ڈکٹیٹر اور فاشسٹ حکمران آیا اُس نے بیوروکریسی پر وار کیا اور وطن عزیز کی ریڑھ کی ہڈی کو توڑ نے پر اپنا سارا زور لگا دیا پیڈوکے ذمے صوبے میں 5 سالوں کے اندر 1200 میگاواٹ کے 7 منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کا کام تھا 2014 ؁ ء میں پر ائیویٹ سیکٹر سے چیف ایگزیکٹیو لا یا گیا تو PEDO ایک بھی سکیم کو مکمل نہ کر سکی EEF کا کام ایلیمنٹری ایجو کیشن کو فروغ دیناتھا باہر سے ایم ڈی لا یا گیا تو فاؤنڈ یشن نا کامی سے دوچار ہوا60 کروڑ روپے باہر سے آنے والے کی تنخواہ اور مراعات میں خرچ ہوئے 45 کروڑ کے غبن اور بد عنوانی کا مقدمہ عدالت میں چل رہا ہے اگر محکمہ تعلیم کا سینئر افیسر اس فاؤنڈیشن کاسر براہ ہو تا تو 5 سالوں میں اس کا شمار کا میا ب ترین اداروں میں ہو سکتا تھا اسلام اباد میں ایک ہفتہ گذار کر اقتدار کی راہد اریوں میں گھو منے پھر نے والا محب وطن شہر ی بخوبی اند ازہ لگا لیتا ہے کہ کپیٹل ڈ یو لپمنٹ اتھارٹی کے پاس اس وقت وفاقی دارلحکومت کے اطراف میں غیر قانونی تجاوزات کو ختم کر نے کا نازک اور مشکل کام ہے بیوروکریسی ملکی قانون کا حوالہ دیتی ہے باہر سے آنے والا شخص قانون سے تعلق رکھنے والا آدمی نہیں ہوگا سول سروس کا افیسر ڈیڑ ھ لاکھ روپے تنخواہ اور ایک لاکھ روپے کے دیگر مراعات لیتا ہے قانون کی رکھو الی کر تا ہے پرا ئیویٹ سکیٹر کا آدمی 10 ہزار ڈالر یا 14 لاکھ روپے تنخوا لے گا5 ہزار ڈالر یا 7 لاکھ روپے کے دیگر مراعات حاصل کر یگا قانون کو با لائے طاق رکھے گا اور 5 سالوں میں CDA کا بیڑہ غر ق کر کے رکھ دے گا مگر ہمارا واسطہ معمولی لوگوں سے نہیں نواب سعادت حسین خان جیسے نا بغہ روزگار لوگوں سے ہے جن کے بار ے میں مرزا غالب نے کہا تھا
زما نہ عہد میں اس کے ہے محو ِارائش
بنیں گے اور تارے اب آسمان کے لئے