داد بیداد۔۔ایک یاد گار نشست۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Print Friendly, PDF & Email

نقطہ نگاہ کے شاعر مولانگاہ کے ساتھ ایک یاد گار نشست ٹھہر ٹھہر کر یاد آ رہی ہے نشست میں محمد عرفان،شہزادہ تنو یر اور شہزادہ مد ثر بھی شر یک تھے محبوب الحق حقی اور ظہورالحق دانش خدمت پر کمر بستہ تھے گفتگو کا موضوع اُن کا فکر وفن تھا جو ظا ہر ہے ماضی کے دریچوں میں جھا نکنے سے شروع ہوا مو صوف 6جولائی 146کو زوند رانگرام تریچ میں پیدا ہوئے
اُن کے والد گرامی جہانگیر لال معتبر شخصیت کے مالک تھے انہوں نے زوند رانگرام میں پر ائمر ی سکول کھولنے کے لئے جہد و جہد کی سکول کھل گیا تو مولانگاہ اور خد انگاہ نے اُس سکول سے تعلیمی سفر کا آغاز کیا جب پر ائیمر ی پاس کیا تو وریجون میں مسافر ت کر کے تعلیم جاری رکھنا پڑا جہاں ہا ئی سکول کے ساتھ کچے مکان میں بورڈ نگ ہا ؤس بنا یا گیا تھا یہ 1960 ؁ء کے عشرے کی بات ہے 1968میں میٹر ک کا امتحان پاس کیا مزید تعلیم کے لئے پشاور جانا چاہتے تھے اُس وقت کے وزیر تعلیم محمد جناب شاہ مرحوم نے ان کے والد صاحب کو بلا کر دھمکی دی کہ تمہا را بیٹا اگر پر ائمری سکول میں ٹیچر بننے کی جگہ کالج میں پڑھنے کے لئے گیا تو میں تمہا رے گاؤں کا سکول بند کر ونگا کیا زمانہ تھا حکومت اچھے اچھے اساتذہ کی تلاش میں رہتی تھی اب قابل لوگ نوکر ی کے لئے سفارش کی تلاش میں سر گر داں ہیں با پ بیٹے نے جان چھڑانے کی بہت کوشش کی مگر کوئی داؤ کا رگر نہ ہوا مجبو را ً کہنا پڑا،”سر تسلیم خم ہے جو حکم سرکار میں آوے“ بادل نا خو استہ پر ائمر ی سکول کے استاد بنے ٹیچرز ٹریننگ سکول لنڈی کوتل سے ٹرنینگ حاصل کیا اس کے بعد پر ائیویٹ تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اردو ادب میں ایم اے کر لیاانسٹیٹو ٹ آف ایجو کیشن اینڈ ریسرچ (IER) پشاور یو نیورسٹی سے بی ایڈ کی ڈگر ی لی ترقی کر کے نظا مت تعلیم میں انتظا می عہد وں پر فائز رہے ہیڈ ماسٹر کی حیثیت سے 2006میں مدت ملازمت پوری کر کے ریٹا ئر ہو ئے یہ بات کہتے ہو ئے اُن کے لبوں پر شر ارت سے بھر پور مسکر اہٹ آئی تنو یر نے کہا کمال ہے نگاہ صاحب بولے یہ کوئی کمال ہے سب ایسا ہی کر تے ہیں عرفان نے کہا کمال یہ ہے کہ آپ نے سرکاری ملازمت کو تو قیر دی،پیشہ تد ریس کو وقا ر دیا اور تخلیقی و تحقیقی اد ب میں نام پیدا کیا دو کتا بیں شائع ہو ئیں تیسر ی کتاب کمپو ز ہو رہی ہے ملازم کو صرف پنشن ملتا ہے آپ کو نا موری بھی ملی، عزت و آبرو کی دولت بھی مل گئی یہ کمال کی بات ہے اور ہمیں اس پر فخر ہے نگاہ صاحب نے ٹو پی اتار کے زانو پر رکھا انگشت شہادت کو اُٹھا کر کہا یہ میر ا کمال نہیں میر ے اساتذہ کا کما ل ہے جنہوں نے بچپن میں مجھے فارسی ادب سے خو شہ چینی کا گر سکھا یا حافظ اور سعدی پڑھا یا، امیر خسرو اور مولانا جامی سے متعارف کر ایا چوتھی جماعت میں تھا تو شعر کہنے لگا تھا باپ کے ڈر اور اساتذہ سے حجاب کے باعث اس کا اظہار نہیں کر سکتا تھا ایک شریک گفتگو نے پو چھا آپ کی غزل میں ردیف قافیے ٹکسالی کھوار کے ہو تے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ ٹو پی کو دوبارہ سر پر رکھتے ہو ئے بولے دو وجو ہات ہیں مہسار،گل اعظم خان، زیارت خان زیرک اورمحمد نادر خان عرف چار ویلو خان کے کلام کا لاشعو ری اثر ہے البتہ شعو ری طور پر میں شہزادہ عز یز الرحمن بیغش کے کلام سے متاثر ہوں جنہیں فارسی پر کامل عبور ہو نے کے با و جود انہوں نے شا عر ی کے لئے ٹکسا لی کھوار کو چُنا
نہ ہر دیوت ہو ئے ارام نہ ژنو دربت تھئین ہو ئے
مہ مس بیر ی نو نسائے یو رڈو کو پر ائے ویزین ہو ئے
بیغش کے اس انداز نے مجھے کھوار کے ردیفوں کی طرف مائل کیا پو چھنے والے نے دوسرا سوال نظم پر داغ دیا آپ کے نظموں میں معاشر ے پر طنز ہے مگر مزاحیہ اسلو ب لئے ہو ئے ہے جس کو آپ نشا نہ بنا تے ہیں وہ خود بھی محظو ظ ہو تا ہے
کو کوڑ ی نعر ہ دکو شیاڑزند ہ باد کو رونیان
اوا مثال ای نارکو کو بس گنی سینجورہ اسوم
یہ اسلوب آپ نے کہاں سے لیا؟ نگاہ صاحب نے پانی مانگا دو گھو نٹ پینے کے بعد گلاس میز پر رکھتے ہو ئے گو یا ہو ئے شاعری مطالعہ فطر ت بھی ہے مطالعہ ادب بھی ہے میں نے فطر ت کو بھی دیکھا، ادب کا بھی مطالعہ کیا نظیرکبر آبادی اور اکبر آلہ آبادی میر ے پسند ید ہ نظم گو تھے اُن کی نظموں میں طنز کے نشتر بھی ہیں مزاح کے پہلو بھی ہیں اگر میر ی نظمیں پسند کی گئیں تو یہ ادب کے مطا لعے کا اثر تھا جس نے میر ی نظموں کو جلا بخشی پو چھنے والے نے پو چھا آپ کی نظمیں کلا سیکی ادب کا درجہ رکھتی ہیں پند یر،مو چھا ئی، اجنبی،کر کٹ، اُستانی،نسونی اور دیگر نظمیں انیس دبیرکی نظموں کے ساتھ مو ازنہ کر نے کے قابل ہیں یہ ملکہ آپ نے کہاں سے پا یا؟ تھوڑی دیر خا موشی کے بعد کہنے لگے یہ آپ لوگوں کی محبت اور ذرہ نوازی ہے واہ واہ کی صدا ئیں اُٹھیں تالیاں بجیں تو نظمیں ہو گئیں ورنہ من آنم کہ من دانم۔عر فان نے دیوان سیرکے ترجمے اور تر جمے کی تشریح کا قصہ چھیڑدیا نگاہ صاحب نے آکسیجن ماسک کی طرف اشارہ کیا، منظور الحق نے ماسک لگا دیا تو گو یا ہوئے کہانی سیر کی جگہ معراج الدین سے شروع ہو تی ہے ہم دونوں دفتر میں انتظا می عہد وں پر تھے وہ ڈیو لپمنٹ کو دیکھتے تھے، میر ا شعبہ اکیڈ یمکس تھا دفتر میں تذکر ہ ہوا تو انہوں نے مسودّے کا ذکر کیا میں نے دلچسپی لی تو شالیکو لا ل کے خاندان میں استاد امیراللہ خان لال کا حوالہ دیا میں نے ایک دن کے لئے مسو دہ حاصل کیا اس کی فو ٹو کا پی کر وائی اگلے دن اصل مسو دہ واپس کیا رسم الخط بہت مشکل تھا اس کا حل ڈھونڈ لیا ترجمہ شروع کیا تو تشنہ لبی محسو س ہو ئی اس لئے تشریح کر نے کا بیڑ ہ اُٹھا یا ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی نے مقتد ر ہ قومی زبان کا راستہ دکھا یا پروفیسر فتح محمد ملک سے رابطہ کر وایا اور کتاب شائع ہو گئی پھیلا ئیے تو داستان ہے سمیٹے تو چار نام ہیں شہزادہ تنویر نے نیا قصہ چھیڑدیا تاریخ چترال پر آپ کا مسودہ کس مرحلے میں ہے؟ نگاہ صاحب نے چھت کی طر ف دیکھا پھر عرفان سے مخاطب ہو کر کہنے لگے مرزا صاحب اگر اس دور میں ہو تے تو اُ ن کا مسو دہ کبھی منظر عام پہ نہ آتا احباب کہتے ہیں یہ حصہ حذف کر دیجئے وہ حصہ کاٹ دیجئے یہ بات نہ لکھتے تو بہتر ہوتا اس بات میں دل آزاری کا پہلو ہے اب خود بتا ئیے مسودہ کس حال میں ہو گا؟ لہجے میں پو شید ہ شکو ے کی تا ثیر کم کر نے کے لئے منتخب کلام سنا نے کی فرمائش کی گئی چار غزلیں اور چھ نظمیں سنا ئیں محفل کو زغفران زار دبنا دیا
چھو چی گوم لیس تو دینینہ
دروسہ تاروس ہے پشینہ
روئیتو دوسا ں شی نگا را
از کجا ئی برادرا
تو کورا رہا و مہ چھترارا
افسوس!علم ادب کا یہ ستارہ 5جنوری 2019کی صبح 73سال کی عمر میں غروب ہوا ؎
غزالاں تم تو واقف ہو کچھ کہومجنون کے مرنے کی
دیوانہ مر گیاآخر کو ویرانے پہ کیا گزری