دادبیداد۔۔2023ء کے انتخا بات کی جھلکیاں۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

Print Friendly, PDF & Email

2023کے عام انتخا بات کی چند جھلکیاں کر تار پور کے شاہراہ کی افتتاحی تقریب سے جا ری کی گئی ہیں خبریں اخبارات میں ایک کا لمی اور دو کالمی سر خیوں کے ساتھ لگی ہیں کہ حکو مت نے بھارتی کر کٹر نو جوت سنگھ سدھو کو اگلے انتخا بات میں پا کستان کے کسی بھی حلقے سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر انتخا ب لڑ نے کی دعوت دی ہے بنگلہ دیش سے بے گھر کئے گئے افراد اور افغان مہا جرین کو پا کستانی شہریت دینے کے اعلان کے بعد یہ حکو مت کا ایک اور انقلا بی قدم ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہیں ہو گا ا ب جتنے منہ اتنی باتیں وا لا مسئلہ پیدا ہوا چاہتا ہے دور کی کوڑ ی لانے والے قسم قسم کے حیرت انگیز اور فرحت آمیز مناظر دکھاتے ہیں مثلاً ایک کارٹو نسٹ نے کا رٹون بنا یا ہے نو جوت سنگھ سدھوکو لاہور کے ایک حلقے سے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے مقا بلے میں جتوا یا گیا ہے اُس نے V کا نشان بنا کر خو شی کے جشن کا آغاز کیا ہے نواز شریف دوسری طرف سر پکڑ کر رو رہے ہیں کارٹون کے نیچے معنی خیز کپشن لکھا ہے ”مو دی کے ساتھ دوستی نواز شریف کو مہنگی پڑ گئی یہ غدار اب کبھی ہم سے نہیں جیت سکے گا۔۔۔ہاہاہا“ مجھے بھارتی شاعر یا س یگا نہ چنگیزی کی مشہور غزل کا زبان زد عام مطلع یاد آیا ؎
بہت زورآزمائی ہو چکی بس
بس خدایا! خدائی ہو چکی بس
پاکستانی عوام کو بہت خوشی ہو گی اگر سدھو لاہور کی کسی نشست سے کامیاب ہوا یا اگر اُس نے علامہ اقبال کے شہر سیالکوٹ سے خواجہ آصف کو شکست دی یا اگر اس نے فیصل اباد سے الیکشن لڑ کر رانا ثنا ء اللہ کو شکست دی پا کستان کے ”محب وطن“ عوام بہت خوش ہونگے مسئلہ اُن لو گوں کا ہے جو پا کستان کو پھلتا پھولتا اور تر قی کرتا ہو ا نہیں دیکھ سکتے اُن لو گوں نے تین بے بنیاد سوالات اُٹھا کر سا را مزہ کر کرا کر دیا ہے ملک کے غداروں کا پہلا سوال یہ ہے کہ نو جوت سنگھ سدھو کو پاکستانی شہریت دینے کے بعد قومی اسمبلی کا ٹکٹ دینے کے لئے کونسے قا نون کا سہارا لیا جائے گا مو جودہ قانون دہری شہریت والوں کو نا اہل قرار دیتا ہے اُ ن نا عا قبت اندیشوں کا دوسرا سوال یہ ہے کہ پارٹی قیادت ان کو ٹکٹ دیتے وقت ان کو پرانے اور مخلص کار کن کا لقب دے گی یا الیکشن جیتنے کی اہلیت والے پہلوان کا نا م دیدے گی؟ ان کو وننگ ہارس پکارے گی یا الیکٹیبل کہے گی؟ مگر یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے ٹکٹ دینے کا کوئی اصول اور قانون توبنا ہی نہیں ہے کسی بھی وقت کسی کو بھی ٹکٹ دیا جا سکتا ہے اس پر سوال اٹھا نے کی اجا زت ہر گز نہیں ہو نی چاہیئے پارٹی کا سر براہ جنگل کا باد شاہ ہو تا ہے چاہے انڈہ دے چاہے بچہ دے ایک نا دان شہری نے یہ سوال بھی اُٹھا یا ہے کہ نو جوت سنگھ سدھو اگر قو می اسمبلی میں قا ئد ایوان منتخب ہوا تو کیا پاکستانی قوم اس کو وزیر اعظم بنائے گی؟ یہ سوال بے جا اور بے سروپا ہے پا کستان تحریک انصاف میں وزارت عظمیٰ کا ایک ہی اُمید وار ہو گا یہ وہی ہو گا جو سدھو کو ٹکٹ دے گا کسی دوسرے کو قائد ایوان بنا نے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو تا بفرض محال وہ قائد ایواں منتخب ہوا توہم عوامی نشنل پارٹی کے ملّی رہبر خان عبدالولی خان مر حوم کے مشہور زمانہ انٹر ویوں کا ٹیپ چلائینگے یہ 1991ء کا ٹیپ ہے قومی اسمبلی کے انتخا بات ہوئے تھے وزارت عظمیٰ کے اُمید وار نو ٹوں کے بریف کیس لیکر ایم این اے ہا سٹل کی راہداریوں میں گھوم رہے تھے خان عبد الولی خان نے ایک اہم نشریاتی ادارے کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہا پاکستان میں وزارت عظمیٰ کی کر سی نیلا می کے لئے رکھی گئی ہے جو سب سے اونچی بولی دیگا وہ اس کر سی کو سنبھالے گا یک دن وہ بھی آئے گا جب کوئی غیر ملکی نو ٹوں کی تجوری لیکر آئے گا اور پاکستان کا وزیر اعظم بن جائے گا یہ ایسا ملک ہے جہاں کوئی بھی عجوبہ ہو سکتا ہے کچھ بھی دیکھا اور دکھا یا جاسکتا ہے بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان سے کسی نے پو چھا کہ آپ کی زندگی سیا سی جدو جہد میں گُزری کوئی عہدہ آپ کو نہیں ملا نوابزادہ نے ازراہ تفنن کہا ”منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے‘ پھر اس کی وضا حت کرتے ہوئے انہوں نے کہا عہدہ حا صل کرنے کے لئے سیا سی جدو جہد سے زیا دہ اسٹاک ایکسچینچ میں مال لگانے کی ضرورت پڑ تی ہے اس پر ہمیں کھوار کے شاعر امین الرحمن چعتائی کا شعر یاد آیا ؎
نہ دی نقد ہٰ مہ جیپو نہ سوپیکو دوم داراکہ
اوا ژوت بیلی نشیرو تہ یہ بزمہ تن نشستو
(نہ میری جیب میں نقدی ہے نہ مجھے جوا کھیلنا آتا ہے میں تیری بزم میں اپنی نشست کب کا ہار چکا ہوں)جملہ ہائے معترضہ سے قطع نظر ہمیں اس بات کی خو شی ہے کہ نو جوت سنگھ سدھو پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر قو می اسمبلی کا رکن منتخب ہونگے تو پار لیمنٹ کو رونق ملے گی اس سلسلے میں ہماری بے تابی کا یہ عالم ہے کہ ہم سدھو کو ضمنی انتخا بات میں جتوا نا چاہتے ہیں ہمارے دوست سید شمس النظر شاہ فاطمی کہتے ہیں کہ مو صوف کو صو بائی اسمبلی کا ٹکٹ دے کر پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنا نا چا ہئیے گریٹرپنجاب کے خواب کی اس سے بہتر تعبیر نہیں ہو سکتی بقول غا لب ؎
لیتا ہوں مکتب غم دل میں سبق ہنوز
مگر یہ کہ رفت گیا اور بود تھا