داد بیداد۔۔پس پر دہ محر کات۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Print Friendly, PDF & Email

دارلعلوم حقا نیہ کے مہتمم، ملی یک جہتی کونسل کے سر براہ اور جمعیتہ العلمائے اسلام (س) کے امیر مو لا نا سمیع الحق جیسی بزرگ ہستی کی شہادت کا سانحہ ایسے وقت پر پیش آیا جب قوم ایک بڑی آزما ئش سے گزر رہی تھی اس واقعہ کو دیگر شہدا ء کے وا قعات کی طرح بھلا نا ممکن نہیں ہو گا بلکہ اس کا سراغ لگا نا ہو گا جیسا کہ مو لا نا حسن جا ن شہید، مو لا نا عبداللہ بخا ری شہید، مفتی نظام الدین شامزئی شہید اور دیگر سینگڑوں جید علمائے دین کو دہشت گردوں نے نشا نہ بنا یا کسی کا بھی قا تل گرفتار نہیں ہو ا کسی بھی قا تل کو سزا نہیں ملی سارے شہر نے دستانے پہنے ہوں تو کسی کے ہا تھ پر خون نظر نہیں آسکتا سفا کا نہ قتل کی تازہ ترین واردات دو پہلووں سے اہم اور لا ئق توجہ ہے واردات اس وقت ہوئی جب ملک میں تو ہین رسا لت کے قا نون کا مسئلہ سنگین صور ت اختیار کر گیا تھا ایسے نا زک وقت پر اس خونی واردات کے پس پردہ محر کات کیا ہو سکتے ہیں؟ دوسرا پہلو یہ ہے کہ مو لانا سمیع الحق شہید بر سر اقتدار جما عت پاکستان تحریک انصاف کے اتحا دی تھے وزیر اعظم عمران خان اور وزیر دفاع پرویز خٹک کے قریبی دوستوں میں شمار ہوتے تھے کسی کو بھی گمان نہیں تھا کہ اتنے بڑے عا لم دین اور حکو مت کے اتحا دی کو اس قدر بے رحمی سے شہید کیا جا ئے گا کسے معلوم تھا کہ پنجاب کے ایک گاوں میں چار ہ کاٹنے والی خواتین کا جھگڑا طول پکڑ ے گا گورنر ما را جائے گا اس کا سیکورٹی گار مارا جائے گا جھگڑے کی ایک فریق کو سزا ئے مو ت سنا ئی جائیگی پھر اس کو بری کیا جائے گا بری کرنے پرہنگا مے پھوٹ پڑینگے اور پا کستان عا لمی خبروں کا مو ضوع بنا رہے گا کسے معلوم تھا کہ جو لوگ 4سال پہلے سڑک بلاک کر کے دھر نا دینے کو حب الوطنی اور قوم کی خدمت کا درجہ دیتے تھے وہی لوگ 4سال بعد سڑک بند کرکے دھر نا دینے کو ملک دشمنی کا نام دینگے کسے معلوم تھا کہ ایک سال پہلے جو لوگ دھر نا دینے والوں میں رقوم تقسیم کرتے تھے وہی لوگ دھر نا دینے وا لوں کو ڈنڈا دکھا ئیں گے وقت بڑا ظا لم ہے یہ وقت کا معا ملہ ہے وقت بہت سی چیزوں کو الٹا دیتا ہے ایک زما نہ تھا جب جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کو افضل جہاد کا درجہ دیا جا تا تھا ایک وقت ایسا آیا ہے کہ جا بر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے سے پہلے جا بر سلطان سے با ضا بطہ اجا زت لینے کی ضرورت پڑ تی ہے اشیر باد حا صل کرنے کی ضرورت پڑ تی ہے اور یہ ہم یعنی ہما شما لوگ نہیں کہہ رہے بڑے بڑے دانشور کہہ رہے ہیں ایک وقت تھا جب سڑک بند کرنے وا لوں کو تھپکی دی جا رہی تھی دلیل یہ تھی کہ یہ ہما رے ہی ہم وطن ہیں پاکستانی ہیں اس ملک کے شہری ہیں سڑک بند کرنے دو کوئی فرق نہیں پڑ تا ایک وقت ایسا بھی آیا کہ سڑک بند کر نا جرم ٹھہرا “جو چاہے تیرا حسن کرشمہ ساز کرے “پھر سڑک بند کرنے وا لوں نے تھپکی دینے وا لوں کی طرف دیکھا وہاں سے جواب آیا “مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ “اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یااس کو کسی بھی نظر بد لگی ہے ایک ہنگامہ ختم ہوتے ہی دوسرا ہنگامہ شروع ہو جا تا ہے وہ ختم نہیں ہو پا تا کہ ایک اور ہنگا مے کے لئے راستہ ہموار کیا جا تا ہے جن شہریوں نے بقائمی ہو ش و حواس 1960یا 1970کی دہائیوں کا دور دیکھا ہے وہ بخو بی جا نتے ہیں کہ اْ س زمانے میں مغربی پا کستان کے اندر معا شرتی اقدار، قا نون اور انصاف کو قدر و منز لت حا صل تھی دو بندوں میں جھگڑا ہو تا تو مسجد کا مو لوی یا میاں جی ان میں صلح کر ا تا تھا کیونکہ دونوں اس کی قدر کرتے تھے پو لیس، تھانہ اور کچہری میں قا نون کا بڑا نام تھا بلکہ مقولہ بھی مشہور تھا کہ قا نون کے ہاتھ لمبے ہیں سیا سی کا رکن، سیاستدان، ایم این اے،ایم پی اے، سر کاری افسراور جج کی بڑی عزت تھی مجسٹریٹ کا بڑا رعب ہو ا کر تا تھا پوے پشا ور کو سر فراز خان مجسڑیٹ اکیلا کنٹرول کیا کر تا تھا 1980کے بعد آہستہ آہستہ معا شرتی اقدار کا جنا زہ نکل گیا بڑوں میں کو ئی بھی غیر متنا زعہ نہیں رہا ہر ایک کے اوپرمخصوص رنگ کا ٹھپہ لگ گیا اسوجہ سے اخلا قی جواز ختم ہو گیا قا نون کے سامنے مسلّح جتھے اور ڈنڈا بر دارفورس آگئے بے پناہ پیسہ آگیا بے تحا شا دو لت آگئی جس نے قا نون کو اندھا، انصاف کو بہرا، افیسروں کو لنگڑا بولا اور بے دست و پا کر دیا بڑوں کے اختیا رات کسی قو ماندان،کسی امیر، کسی حا جی صا حب اور دیگر لو گوں کو حا صل ہوگئے معا شرے کا نظم و ضبط ختم ہو گیا ایک آدمی بندوق، بم اور خودکش جیکٹ لہرا کر پورے شہر کو یر غمال بنا نے لگا پاک فوج نے دہشت گر دی کے خلاف صبر آزما اوردیر پا جنگ لڑی بھا رت کے خلاف سر حدی محا ذوں پر چار جنگوں سے زیا دہ قر با نیاں وطن کے اندر ونی دشمنوں کے خلاف جنگ میں دی گئیں پھر حقیقت یہ سامنے آگئی کہ اندرونی دشمن بیرونی دشمن سے 10گنا زیا دہ خطر نا ک ہو تا ہے
مو لا نا سمیع الحق کی شہا دت کے لئے جس وقت کا تعین کیا گیا وہ معنی خیز ہے وزیر اعظم چین کے دورے پر ہیں ملک میں آسیہ ملعونہ کی رہا ئی کے خلاف احتجا ج ہو رہا ہے انتظا می مشینری کی پوری نظر اْس احتجا ج، سڑ کوں کی بندش اور دیگر امور پر ہے ایسے حا لات میں شہید کے گھر میں لوگ گھْس گئے شہید کو خون میں نہلا یاتصویر اتا ری اور اْس تصویر کو ٹیلی وژن، فیس بک، واٹس ایپ اور دیگر ذرائع سے پورے ملک میں پھیلا یا مقصد یقینا یہ ہے کہ مزید انتشار پھیلے، مزید بد امنی ہو اورمزید فساد اٹھے ظا ہر ہے کہ اس طرح کے وا قعات کا کھوج لگانا ملکی اداروں کے لئے بڑ ا امتحان ہو تا ہے اللہ پاک شہید کے در جات کو بلند کرے اور قومی اداروں کو ایسے واقعات کے پس پر دہ محر کا ت پر توجہ دینے کی تو فیق عطا فر مائے