چترال (نمائندہ چترال میل) چترال شہر سے تقریباً 100کلومیٹر اور مستوج کے تحصیل ہیڈ کوارٹرز سے 20کلومیٹر دور پرواک نام سے 3000سال پرانا گاؤں واقع ہے جوکہ اپنی خوبصورتی اور رعنائی کے لحاظ سے دریا پار کے گاؤں سنوغر سے کسی بھی طور پر کم نہیں اور اس گاؤں کے کسی بھی حصے سے سنوغر کے گلیشیر کامسحور کن نظارہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے اور مغل سلطنت کا بانی ظہیر الدین بابر کا گزر اگر اس گاؤں سے ہوتا تو وہ ان دو جڑواں گاؤں کا ہوکے رہتا اوراس گاؤں کی قسمت جاگ اٹھتی اور یہاں مغل فن تعمیر کا کوئی شہکار چھوڑ جاتا اور بابر نامہ میں ان جڑواں گاؤں کاذکر ضرورہوتا۔ قبل آز مسیح کا یہ گاؤں اب بھی زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم اور حکومتی عدم توجہی کا مسلسل شکار ہے جہاں پینے کا صاف پانی نہیں ہے تو علاج معالجے کے لئے ہسپتال ندارد، گاؤں کی زرخیز زمین سونا اگلنے اور اپنے کاشت کاروں کو نہال بنانے کے لئے ہر دم تیار ہے لیکن ابپاشی کے لئے پانی نہیں۔چند دہائی سال پہلے آثار قدیمہ کے ماہرین نے اس گاؤں میں کھدائی کرکے ہزاروں سال قدیم تہذیب وتمدن کے آثار سامنے لے آئے جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہاں کے رہنے والے اپنے دور کے ترقی یافتہ اور خوشحال تھے لیکن اس جدید دور میں اس گاؤں کے باسیوں کو درپیش مسائل کا ذکر کیا جائے تو کف افسوس ملنے کے سوا کچھ نہیں ملتااور ‘بدلتی ہوئی پختونخوا’کی حقیقت بھی عیاں ہوتی ہے۔ برطانوی سرکار(جسے ہم حقارت سے برطانوی سامراج کہتے ہیں) نے تو 1902ء میں اس علاقے میں پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لئے نہر کی تعمیر کرائی تھی جوکہ آنے والے کئی دہائی سالوں تک علاقے میں ابپاشی اور ابنوشی دونوں ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کافی تھا جس کے بعد حکومت کی طرف سے ایک پائی بھی اس علاقے میں اس سیکٹر پر خرچ نہیں ہوا تاانکہ آغاخان رورل سپورٹ پروگرام (اے کے آر ایس پی) نے 1980ء کی دہائی میں سائفن ایریگیشن اسکیم کے ذریعے یہاں پانی کی قلت دور کرنے اور مزید رقبہ زیرکاشت لانے کا باعث بنا۔ سنوغر اور پرواک کی جنت نظیر جڑواں گاؤں کے مسائل سے آگہی حاصل کرنے کے لئے چترال پریس کلب نے پرواک گاؤں میں ایک پریس فورم کا اہتمام کیا جس میں گاؤں کے منتخب ویلج ناظم، نائب ناظم اور کونسلروں سمیت گاؤں کے باسیوں نے مسائل کی تفصیل بیان کی۔ ویلج کونسل پرواک کے ناظم وورمحمد نے اس دوردراز علاقے کے مسائل بیان کرنے کے لئے پریس فورم منعقد کرنے پر چترال پریس کلب کے عہدیداروں کا شکریہ اداکرتے ہوئے اس امید کا اظہارکیاکہ ان کے مسائل مختلف میڈیا میں highlightہونے پر نیا پاکستان کا دعویٰ کرنے والے ضرور ان کے حل کی طرف توجہ دے کر ان کو پسماندگی کے دلدل سے باہر نکال لیں گے۔
ابپاشی کے لئے پانی کامسئلہ: پریس فورم میں اظہار خیال کرنے والے تقریباً تمام شرکاء نے اس مسئلے کی طرف توجہ دلائی جس سے اس کی سنگینی کا اندازہ بخوبی لگایاجاسکتا ہے۔ وورمحمد، عید علی، ماسٹر عزیز، سید ربی شاہ، بابو خان اور لیڈی کونسلر سارہ بی بی نے کہاکہ 1902ء میں برطانوی سرکار کا تعمیر کردہ ایریگیشن چینل کے ذریعے قریبی نالہ نصر گول سے پانی لایا جارہا تھا جس کی مقدار ابھی کم رہ جانے کے ساتھ ساتھ آبادی میں اضافے کی وجہ سے ذیادہ رقبہ زیر کاشت لائے جانے پرضرورت کو پورا کرنے کے لئے قطعاً ناکافی ہے۔ تمام شرکاء نے اس مسئلے کا ایک ہی حل تجویز کرتے ہوئے تقریباً 8کلومیٹر کے فاصلے پر واقع دریائے لاسپور سے سائفن کے ذریعے پانی لانے کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ابپاشی کے لئے وافرمقدارمیں پانی کی دستیابی پر علاقے سے غربت کا خاتمہ ہوگا کیونکہ یہ علاقہ اپنی زرخیزی کے لئے شہرت رکھتا ہے جوکہ ڈبل کراپ زون میں واقع ہے اور پورے ضلعے کو یہاں سے سبزی اور پھل (خوبانی،سیب، ناشپاتی، آلوچہ اور آڑو) کو یہاں سے سپلائی ہوسکتی ہے۔ انہوں نے پی ٹی آئی کی صوبائی اور مرکزی حکومتوں پر زور دیتے ہوئے کہاکہ دریائے لاسپور سے سائفن ایریگیشن سسٹم کی فزیبیلٹی کی جائے اور موجودہ نہروں کو ایریگیشن ڈیپارٹمنٹ کی تحویل میں دے دئیے جائیں تاکہ ان کی دیکھ بال ہوسکے کیونکہ پہاڑی جگہوں سے گزرنے کی وجہ سے ان کی دیکھ بال عوام کے بس سے باہر ہوگئی ہے۔
ابنوشی کے لئے پانی کا مسئلہ: وورمحمد، عید علی اور دوسروں نے کہاکہ اگرچہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ نے 3کروڑ 20ہزار روپے کی لاگت سے واٹر سپلائی اسکیم مکمل کی ہے اور پانچ مختلف مقامات پر ضرورت کے مطابق واٹر ٹینک بنائے گئے ہیں لیکن پانی عدم دستیاب ہے اور ہرسال سردی کے چھ مہینوں میں ابپاشی کا پانی فارغ ہونے پر اس لائن میں ڈال دی جاتی ہے اور گرمی کے باقی چھ ماہ تک یہ پائپ لائن مکمل طور پر خشک رہتے ہیں۔ انہوں نے اپنا مطالبہ دہراتے ہوئے کہاکہ دریائے لاسپور سے پانی سائفن کے ذریعے لانے پر ابپاشی کے ساتھ یہ مسئلہ بھی ہمیشہ کے لئے حل ہوگا۔
بجلی: بجلی کی فراہمی کے ساتھ ساتھ میٹر ریڈنگ کئے بغیر بل بھیجنے کے سنگین مسائل سامنے لائے گئے۔ وورمحمد، عید علی، ماسٹر عزیز، لیڈی کونسلر سارہ بی بی نے ریشن میں پختونخوا انرجی ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن (پیڈو) کے ریذیڈنٹ انجینئر کو شدید ہدف تنقید بناتے ہوئے کہاکہ وہ ریشن میں اپنے دفتر میں کبھی بھی دستیاب نہیں ہوتے اور نہ ہی ان علاقوں کا دورہ کرنے کی زحمت کرتے ہیں جس کے نتیجے میں سب ڈویژن مستوج کے دیگر علاقوں کی طرح پرواک سنوغر بھی شدید متاثر ہیں جہاں چوبیس گھنٹوں میں صرف پانچ گھنٹے بجلی دستیاب ہوتی ہے جبکہ اس سال فروری میں افتتاح شدہ گولین گول بجلی گھر (108 MW)سے بجلی وافر مقدار میں چوبیس گھنٹے دستیاب ہوتی ہے لیکن پیڈو کے ریذیڈنٹ انجینئر کی نااہلی کی وجہ سے صرف پانچ گھنٹے مہیا ہوتی ہے اور وہ بھی رات گیارہ بجے سے لے کر صبح چار بجے تک۔ انہوں نے کہاکہ بجلی کے بل بھی بغیر میٹر ریڈنگ کے صارفین کو بھیجے جاتے ہیں کیونکہ میٹر ریڈر کی شکل تک ابھی کسی نے نہیں دیکھی۔ اس موقع پر پیڈو کے ان دو ٹرانسفارمروں کی طرف توجہ دلائی گئی جوکہ کئی سالوں سے پرواک کے مختلف مقامات پڑے ہوئے گل سڑ رہے ہیں۔ اہالیان پرواک نے ٹرانسمیشن لائن کے ان تاروں کی طرف بھی توجہ دلائی جوکہ پیڈو کی طرف سے مرمت اور دیکھ بال نہ ہونے کی بنا پر کھیتوں پر چند فٹ کی اونچائی پر آگئے ہیں اور کسی بھی وقت حادثے کا سبب بن سکتے ہیں۔
صحت: صحت وہ شعبہ ہے جس میں بہتر ی کے بارے میں پی ٹی آئی حکومت کی کارکردگی یہاں پر مایوس کن ہے۔ اگر میڈیا میں پھیلائی جانے والی پروپیگنڈوں اور انتخابی مہم کے دوران پارٹی لیڈروں کے دعوؤں کی حقیقت کو ئی جاننا چاہے تو وہ بلاتامل پرواک سنوغر چلاآئے جہاں بیسک ہیلتھ یونٹ تو موجود ہے لیکن گزشتہ پانچ سالوں کے دوران کسی ڈاکٹر نے اس کی عمارت میں قدم نہیں رکھا اور نہ ڈایگناسٹک سہولیات میسر ہیں اورمریضوں اورزخمیوں کو بونی یا چترال ہی جانا پڑتا ہے جبکہ پرواک اور سنوغر کے درمیاں دریا کو عبور کرنے کے لئے پل کی سہولت مطلوبہ اور آسان مقامات پر نہ ہونے کی وجہ سے پرواک سے سنوغر جانا ذیادہ مشکل ہے جس کی وجہ سے اس گاؤں سے لوگ علاج معالجے کے لئے بونی ہی کا رخ کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھاکہ اگر پرواک میں بیسک ہیلتھ یونٹ قائم کرنا مشکل ہے تو سنوغر بی ایچ یو میں ڈاکٹر اور لیبارٹری سمیت تمام سہولیات فراہم کئے جائیں اور ان دو گاؤں کے درمیاں جیپ ایبل پل متعدد مقامات پر قائم کئے جائیں۔ اہالیاں پرواک نے کہاکہ آغا خان ہیلتھ سروس پاکستان نے بھی پرواک اور سنوغر میں کوئی ہیلتھ سنٹر کھولنے کی طرف ابھی توجہ نہیں دی ہے جوکہ پسماندہ علاقوں میں علاج معالجے کی بہتر سہولیات دے رہی ہے۔
سنوغر اور پرواک کے درمیان معلق پل: سنوغر اور پرواک دریا پار آمنے سامنے واقع ہیں جن کے درمیان صرف ایک خستہ حال جیپ ایبل پل رابطے کا
ذریعہ ہے اور کئی دہائی سال پہلے کے سرکاری انجینئروں کی عقل پر ماتم کرتی ہوئی نظرآتی ہے کیونکہ یہ پل نہ تو سنوغر کے سامنے ہے اور نہ ہی پرواک کا احاطہ کرتا ہے بلکہ یہ دونوں گاؤں سے بہت دور لے جاکر پہاڑوں کے دامن میں تعمیر کیا گیا ہے جس میں سے گزرنے کے لئے پہلے چار موڑ پرواک گاؤں سے کاٹنا پڑتا ہے اور پھر پانچ موڑ کاٹ کر سنوغر گاؤں میں داخل ہوسکتے ہیں۔ فورم کے تمام شرکاء نے بیک زبان جس مسئلے پر سب سے ذیادہ فوکس کیا، وہ پرواک اور سنوغر کے درمیان کم از کم دو مقامات پر جیپ ایبل پلوں کی تعمیر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر دو مقامات پر پل تعمیر ہوجائیں تو پرواک کے لئے نئی ہسپتال کی چندان ضرورت نہیں رہے گی جبکہ گورنمنٹ ہائی سکول بھی سنوغر ہی میں واقع ہے مگر طلباء وطالبات کو موجود پل سے ہوکر سنوغر پہنچنے میں تین سے چار گھنٹے پیدل چلنا پڑتا ہے جبکہ نومبر سے لے کر مئی کے وسط تک پل کے قریب پہاڑ سے پتھر اور برفانی تودے گرنے سے جانی خطر ے کے پیش پرواک سے تعلق رکھنے والے بچے اور بچیاں ان دنوں میں غیر حاضر رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ انہوں نے چند سال پہلے کا واقعہ یاددلاتے ہوئے کہاکہ سوسوم گاؤں میں مارچ ہی کے مہینے میں برفانی تودہ گرنے سے نویں جماعت کے دس بچے کئی ہفتوں تک برف تلے دبے رہے۔ اہالیاں پرواک نے موجود ہ پل کے علاوہ دو مزید مقامات پر پل اس لئے بھی ناگزیر ہیں کہ سنوغر اور پرواک کے درمیان دریا دیوار برلن کی طرح ان کو ایک دوسرے سے جدا کرکے رکھ دیا ہے اور یہ بات بھی حقیقت ہے کہ 2006ء میں سنوغر میں گلیشیر کے پھٹ جانے کے نتیجے میں سیلاب سے سنوغر کے سینکڑوں گھرانے پرواک منتقل ہوکر یہاں بس جانے پر مجبور ہوئے اور ان کو اب بھی سنوغر آنا اور جانا پڑتا ہے لیکن پل نہ ہونے کہ وجہ سے وہ روزانہ چار پانچ مرتبہ آر پار جانے کی بجائے ہفتے کے دن کا انتظار کرتے ہیں۔ انہوں نے حکومت کے علاوہ بین الاقوامی ڈونر ایجنسیوں سے بھی مطالبہ کیا کہ ان پلوں کی تعمیر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کی جائے۔
ایجوکیشن: پرواک میں ہائی سکول نہیں ہے اور بچوں اور بچیوں کو مڈل کی تعلیم کے بعد سنوغر جانا پڑتا ہے جبکہ بچیوں کے لئے الگ سکول بھی نہیں ہے۔ علاقے کے معززیں حاجی سرفراز خان، لیڈی کونسلر ممتاز بانو، قربان زار، مولانا محمد شیراز نور احمد شاہ اور صلاح الدین شاہ نے پلوں کی تعمیر کے ساتھ پرواک میں زنانہ ہائی سکول اور طلباء وطالبات کے لئے ہائیر سیکنڈری سکول کا بھی مطالبہ کیا۔
زراعت و انیمل ہسبنڈری: اہالیاں پرواک وسنوغر نے ماضی کی حکومتوں کی اس بے حسی پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہاکہ ایک ہزار سے بھی ذیادہ گھرانوں کے لئے ابھی تک وٹرنری ڈسپنسری قائم کرنے کی طرف کسی نے توجہ نہیں دی جبکہ علاقے کے عوام بار بار مطالبہ کرتے کرتے تھک گئے۔ نائب ناظم عید علی اور لیڈی کونسلر سارہ بی بی نے کہاکہ علاقے میں سو فیصد گھرانوں میں مال مویشی پالتے ہیں لیکن وٹرنری ڈسپنسری نہ ہونے سے بعض اوقات وبائی مرض پھیل جانے سے بڑے پیمانے پر تباہی مچ جاتی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھاکہ محکمہ زراعت کا عملہ ان کے لئے خلائی مخلوق کی طرح ہیں جوکہ کبھی بھی یہاں پر آنے کی زحمت گوارا نہیں کی جبکہ پھلوں، سبزیوں اور اناج کے پیدوار کے لئے یہ علاقہ نہایت موزون ہے لیکن جدید خطوط پر استوار کرنے کے لئے محکمہ زراعت کی مدد کی ضرورت ہے جوکہ یہاں سے روٹھ گئی ہے۔
ماحولیات: پرواک گاؤں میں یہ بات پورے ضلعے میں منفرد ہے کہ یہاں صنوبر کا جنگل اپنی قدیم شکل میں موجود ہے اور گزشتہ چار دہائی سالوں سے اس کے کاٹنے پر مکمل پابندی عائد ہے جس کی وجہ سے جنگل کی آبادی میں خوشگوار اضافہ ہورہا ہے اور اس وجہ سے سیلابوں کا سلسلہ بھی تھم گئی ہے جوکہ کسی زمانے میں لوگوں کی زندگی اجیرن بنادی تھی۔بابو خان، نوراحمد شاہ اور دوسروں نے کہاکہ اس جنگل سے وہ نہ صرف سوختنی لکڑی حاصل کرتے تھے بلکہ وہ مال مویشی بھی چرانے کے ساتھ ساتھ دوسرے فوائد بھی حاصل کرتے تھے۔ اس سب کے باوجود حکومت کی طرف سے کوئی حوصلہ افزائی کا پیغام ابھی تک نہیں ملا جوکہ قابل افسوس بات ہے۔
تجاوزات: پرواک گاؤں انگریز سرکار کے زمانے سے آباد ہے اوریہاں اسٹیٹ لینڈ کی حدبندی بھی انہوں نے کی تھی جبکہ اس گاؤں سے کئی فٹ چوڑی سڑک بھی گزرتی تھی جو اس زمانے میں پیدل بار بردار ی کے لئے استعمال ہوتاتھا۔ اب اس سڑک پر بعض لوگوں کی طرف سے قبضے نے اہالیاں پرواک کو پریشان کررکھا ہے۔ مولانا محمد شیرا زاور جنرل کونسلر عیسیٰ علی نے کہا کہ مستوج کی سب ڈویژنل انتظامیہ کی نااہلی اور غفلت سے ریاست چترال کے زمانے سے قائم سڑک پر جگہ جگہ لو گ قابض ہوگئے ہیں جس کو قابضین سے واگزار کرانے کے لئے فوری طور پر اپریشن کیا جائے۔ ا ن کا کہنا تھاکہ حکومت کے پاس اسٹیٹ روڈ کا نقشہ موجود ہے جس کے مطابق کاروائی کی جائے۔
ویمن ڈیویلپمنٹ: لیڈی کونسلرز سارہ بی بی اور ممتاز بانو نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیاکہ اب تک پرواک وسنوغر میں ترقی نسواں کے لئے حکومت نے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ انہوں نے کہاکہ خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے ماضی کی تمام حکومتیں بلند بانگ دعوے کرتے رہے ہیں لیکن یہ صرف تقریر اور دعوے تک محدود رہے۔ انہوں نے ووکیشنل سنٹر کے قیام کا مطالبہ کیا۔
مستوج سے ضلع کونسل کے رکن غلام مصطفی نے کہاکہ موجودہ بلدیاتی نظام میں بغیر مالی وانتظامی اختیارات کے کونسلروں کو ضلع، تحصیل اور ویلج کونسلوں میں بیٹھائے گئے ہیں جن کے ہاتھ میں عوام کے مسائل حل کرنے کے لئے کچھ نہیں ہے۔ ان کاکہنا تھاکہ ہم اپنے اپنے فورم میں عوامی مسائل کی نشاندہی کرتے رہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھاکہ سب ڈویژن مستوج کے علاقوں میں اس وقت بجلی کی ذیادہ لوڈ شیڈنگ کا واحد سبب یہی ہے کہ اب بھی چترال شہر اور مضافات میں قائم آرا مشین اور ماربل فیکٹریوں کو 2015ء سے پہلے کی طرح ریشن کے لائن سے بجلی دی جاتی ہے جس میں بجلی کی بہت ذیادہ مقدار کی کھپت کی وجہ سے یہاں لوڈ شیڈنگ کی جاتی ہے۔ انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیاکہ ضلع کونسل میں متفقہ قرارداد پاس ہونے کے باوجود ان ماربل فیکٹریوں اور ارا مشینوں کو جوٹی لشٹ کے گرڈ اسٹیشن سے بجلی نہیں دی جاتی ہے۔ پروگرام کے شروع میں مقامی کونسلر کریم اللہ نے پرواک گاؤں کی تاریخی پس منظر بیان کرتے ہوئے کہاکہ یہ چترال کا قدیم ترین گاؤں ہے لیکن اب یہ گوناگوں مسائل سے دوچار ہے۔
اس موقع پر بونی مستوج روڈ کی زبون حالی بیان کرتے ہوئے اہالیان پرواک نے کہاکہ سی اینڈ ڈبلیو ڈیپارٹمنٹ نے سرکاری ریکارڈ میں اسے بلیک ٹاپ ظاہر کیا گیا ہے۔ اس بے قاعدگی اور غبن کی تحقیقات کی جائے۔