حکمنامہ ہے کہ سرکاری ملازم کسی اخبار میں کوئی ارٹیکل وغیرہ حکومت یا حکومتی پالیسیوں کے خلاف لکھے یا خط لکھے یا ریڈیو ٹی وی وغیرہ کو انٹرویو دے تو اس کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔۔یہ کاروائی آئین و قانون کے تحت ہوگی۔۔اچھی بات ہے۔۔۔ بہت ہی اچھی بات۔۔۔ملازم کا انگریزی ترجمہ ”سرونٹ“ ہے۔۔ اس کا معنی غلام کے ہیں۔یہاں فرق صرف یہ ہے کہ غلامی معاوضے کے عوض ہے۔۔خدمت کا معاوضہ ملتا ہے۔۔یہی خوش قسمتی ہے کہ ایک آزاد ملک کا باشندہ اپنے ملک میں برسر روزگار ہے۔۔اللہ نے اس پہ کرم کیا ہے۔اس کے لئے اس کو ریاست کا، اس حکومت کا، اس سرکار کااحسان مند ہونا چاہیے۔۔سرکاری اداروں کے ملازم جتنا مخلص،محنتی،کھرے،امانتدار اور ادارے کا وفادار ہونگے۔۔ اتنا ملک ترقی کرے گا۔قومی ادارے مضبوط ہونگے۔زندہ قوموں کی ایک نشانی یہ ہے کہ اس کا ہر فرد زمہ دار ہو تا ہے۔وہ اپنے کام سے کا م رکھتا ہے۔۔مگر ہمارے ہاں اس صلاحیت کا فقدان ہے۔۔اس لئے حکم نامہ جاری کرنا پڑتا ہے۔اداروں کو سیاست سے دور رکھنا پڑتا ہے۔۔اگر ایک بندہ ادارے میں رہ کر ادارے کے خلاف بولے۔حکومت کا مراغات یافتہ ہوتے ہوئے ان کے خلاف بولے تو یہ اس کا جرم ہے۔۔ایک استاد کلاس روم میں پڑھا رہا ہے یہ بھی اصل میں قوم کی خدمت ہے اس کو احسن طریقے سے انجام دے۔۔انجینئر سڑک بنا رہا ہے۔۔ڈاکٹر مریضوں کا علاج کر رہا ہے۔فوج سرحدوں کا محافظ ہے۔۔پولیس قانون کامحافظ ہے یہ سب اعلی درجے کی خدمات ہیں۔ ان کا لحاظ رکھنا ہی بڑا کام ہے۔۔اب اعمال کی وجہ سے عمال آتے ہیں۔۔اگر آپ کی مراعات پر کوئی فرق نہیں پڑا۔۔اگر آپ کی تنخواہیں بڑھائی جاتی ہیں۔۔اگر آپ پر کام کا کوئی ناجائز بوجھ نہیں ڈالا جاتا۔۔اگر آپ کی عزت واحترام ہے۔۔تو پھر تمہیں کیا پڑی ہے کہ سیاست لکھیں۔اگر لکھنے کا شوق ہے۔۔ تو زندگی لکھو۔۔محبت لکھو۔۔ مذہب لکھو۔۔آپس کے تعلقات لکھو۔۔اخلاق و کردار لکھو۔۔ملک و قوم سے محبت لکھو۔۔اللہ کی رحمتیں لکھو۔۔انسانیت کا احترام لکھو۔۔عزت لکھو۔۔رنگ و بو لکھو۔۔فطرت لکھو۔۔اس کائنات کی وسعت لکھو۔۔رنگئنیاں لکھو۔۔رشتے ناتے لکھو۔۔ماں کی عظمت لکھو۔۔باپ کا مرتبہ لکھو۔۔انسان لکھو۔۔انسان کی خوبصورتی لکھو۔۔سرو قد لکھو۔۔شرین دھن لکھو۔۔آنکھیں لکھو۔۔کیوں سیاست لکھو گے۔۔ سیاست تو ایک موضوع ہے۔۔اس پر لکھنے والے بہت ہیں۔۔ سیاسی کارندے۔۔گالیوں سے محبت کرنے والے۔۔غیبت کرنے والے۔۔دوسروں پر تنقید کرنے والے۔۔ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کی کوشش کرنے والے۔۔نہ ان کی دشمنی کا کوئی اعتبار۔۔نہ دوستی کا پتہ۔۔اس لئے ان کے ساتھ کوئی ایسی ویسی بات اچھی لگتی ہے۔۔کوئی ملازم احسان فراموش نہیں ہوتا اگر ہو جائے تو اس کی سزا کڑی ہونی چاہیئے۔۔جو اقتدار میں ہوگا وہ اس کا حکمران ہے۔۔حکمران کا احترام نہ کرنا اپنے آپ کی بے عزتی کرنا ہے۔۔اس لئے اپنے اوقات میں رہنا بہتر ہے۔۔کچھ لوگ سیاسی مزاج رکھتے ہیں۔۔ان کو تبصرہ کرنا اچھا لگتا ہے۔وہ یہ سب کچھ بھول جاتے ہیں کہ ان کا دائرہ کار اور دائرہ اختیار ہے۔۔ان کی حدود ہیں۔۔ان کی ملازمت کی نوغیت ہے۔۔انھوں نے اپنے عہدے کا چارچ لیتے وقت عہد کیا ہے قسم کھائی ہے کہ وہ ریاست کا وفادار رہے گا۔۔اپنے کام سے کام رکھے گا۔۔اپنے دائرہ اختیار میں رہے گا۔۔یہ عہد قسم کہلاتا ہے۔۔اس نے سچ مچ قسم کھائی ہے۔۔یہی قسم اداروں کا تقدس ہے۔جس کی پاسداری ہر ملازم پہ فرض ہے۔۔
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات