صدابصحرا۔۔رائے عامہ۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

Print Friendly, PDF & Email

ؔ

پاکستان میں 25جولائی کا ووٹ رائے عامہ کا امتحان ہے رائے عامہ کارکردگی دیکھ کر فیصلہ کرتی ہے تقریروں سے متاثر ہوتی ہے یا الیکٹرانک او ر سوشل میڈیا کے یک طرفہ پروگراموں کو دیکھ کر ہیرو کو زیرو اور زیرو کو ہیرو بنادیتی ہے۔ پاکستان کے مختلف شہری اور دیہاتی علاقوں میں رائے عامہ کا رجحان مختلف نظر آتا ہے۔ سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن پر رائے عامہ کا اعتماد نہیں ہے۔ حکومت وقت کی غیر جانبداری پر عوام کا بھروسہ نہیں ہے۔ اس صورت حال کو بد اعتمادی (Breach of Trust) کہا جاتا ہے اور یہ کوئی اچھی بات نہیں۔ مگر اس کی وجوہات موجود ہیں۔ اگلے 5دنوں میں ان وجوہات کا ازالہ ممکن نہیں۔ مثلاََ پوسٹل بیلٹ کے لئے ایک پارٹی کے حق میں اوپر سے احکامات آنا اور اکثریت کے ووٹ ایک پارٹی کو دینے میں حکومت کی غیر معمولی دلچسپی لوگوں میں چہ می گوئیوں کا باعث بنتی ہے۔ بعض ٹیلی وژن چینلوں کی طرف سے ضابطہ اخلاق کی صریح خلاف ورزیوں پر حکومت کا خاموش ہونا شکوک کو جنم دیتا ہے۔ بعض پارٹیوں پر دہشت گرد حملو ں کے واقعات اور بعض پارٹیوں کو فل سیکیورٹی دینا ایسا کام ہے جو حکومت کی غیر جانبداری پر سوال اُٹھانے کا باعث بنتاہے۔ مخالف پارٹی کے جلسوں اور کارنر میٹنگوں میں ایک پارٹی کی طرف سے مداخلت، ہُلڑ بازی اور غنڈہ گردی کی کھلم کھلا اجازت بھی اس زمرے میں آتی ہے۔ صحافیوں کے ایک وفد نے این اے۔1اور پی کے۔1چترال کا دورہ کیا۔ یہ علاقہ روایتی طور پر بے حد پُر امن علاقہ ہے۔ یہاں کبھی سیاسی بنیادوں پر تشدد کا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ مگر ایک پارٹی کو کھلی چھٹی دینے کی وجہ سے کئی ایسے واقعات ہوئے جو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتے ہیں۔ پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی نے ایشیا سیٹ (Asia Sat) سے پی ٹی وی سمیت تمام چینلوں کو ہٹا کر ایک ہی نیوز چینل فراہم کیا ہے۔ جو PEMRAقوانین کی خلاف ورزی ہے اور ایک پارٹی کے حق میں الیکٹرانک پروپیگنڈے کی سرکاری کوشش معلوم ہوتی ہے۔ الیکشن میں 5دن رہ گئے ہیں۔ رائے عامہ کی صورت حال روز بروز بدل رہی ہے۔ چترال سے ماضی میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نے اکیلے کامیابی حاصل کی ہے۔ پی پی پی نے 7بار اور پاکستان مسلم لیگ نے 5بار کامیابی کا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ جماعت اسلامی کو ایک بار پی پی پی، ایک بار مسلم لیگ اور ایک بار جمعیت العلمائے اسلام کی حمایت سے کامیابی ملی۔ جب کہ جمعیت العلمائے اسلام کو ایک ہی دفعہ جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد کی وجہ سے کامیابی حاصل ہوئی۔ ماضی میں لواری ٹنل چترال میں سب سے بڑا انتخابی ایجنڈا ہوتا تھا۔ 2018ء میں لواری ٹنل مکمل ہونے کے بعد تاجکستان روڈ، سی پیک اور افغان ٹریڈ روٹ بڑے مسائل کا درجہ رکھتے ہیں مگر کسی سیاسی جماعت اور کسی اُمیدوار نے ان منصوبوں کا نام نہیں لیا۔ اب تک انتخابی مہم مسلک، قومیت اور برادری کے گرد گھومتی ہے۔ ووٹروں میں دو طرح کے رجحانات دیکھے گئے ہیں۔ پارٹی وابستگی کو بالائے طاق رکھ کر مسلک اور برادری کی بنیاد پر قومی اسمبلی کا ووٹ میرے فلانہ خان کو اور صوبائی اسمبلی کا ووٹ اپنے تیس مار خان کو دید و۔ ووٹر بھی کہتا ہے۔ بڑا ووٹ (این اے۔1) تمہیں دوں گا اور چھوٹا ووٹ (پی کے۔1) اپنے دوست کو دینے کا وعدہ کیا ہے۔ کھوار کے شاعر کا مصرعہ ہے ”وعدہ کوری مومن مسلمان خور کیچہ کوروئے“ مطلب یہ ہے کہ مومن اور مسلمان وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ ایک محلے میں جانے کا اتفاق ہوا۔ 60گھرانوں کی چھتوں پر ایک ہی پارٹی کے جھنڈے لگے ہوئے تھے۔ گاؤں کے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں تو سب کے سب مخالف پارٹی کے ووٹر نکلے میں نے پوچھا یہ جھنڈے؟ ایک ستم ظریف نے لقمہ دیا ”دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا“ایک جگہ بزرگوں کی مجلس میں بیٹھنے کا اتفاق ہوا۔ووٹ کے حوالے سے اُن کا نقطہ نظر بڑا صاف اور واضح تھا۔ وہ کہتے ہیں سب کے جھنڈے لہرائینگے، ہر ایک کا استقبال کریں گے، ہر ایک کو اپنی حمایت کا یقین دلائیں گے مگر ووٹ اپنی پرانی پارٹی کو دیں گے یا اپنے عزیز رشتہ داروں کو دیں گے۔ گویا جھنڈوں، پرچموں، ٹوپیوں اور مفلروں کا ووٹ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اس حلقے کا المیہ سب کو معلوم ہے۔ یہاں غیر سرکاری تنظیم سرکار سے زیادہ فعال ہے۔ سرکاری حکام بھی غیر سرکاری تنظیم کے محتاج ہیں۔ گذشتہ 5سالوں میں سرکاری فنڈ اور اے ڈی پی کی کوئی سکیم نہیں آئی۔ ہر سال فنڈ واپس کیا جاتا تھا۔ 4ہزار ٹھیکہ دار اور 50ہزار مزدور، کاریگر 5سالوں تک بے روزگار بیٹھے رہے۔ حکمران جماعت کے لئے اس طرح کی محرومیوں کا جواب دینا بڑا مشکل ثابت ہواہے۔ اس لئے انتخابی مہم کا رُخ کارکردگی سے ہٹا کر غیر متعلقہ باتوں کی طرف موڑ دیا جاتا ہے۔ 3ہفتوں کی پھیکی اور بے مزہ انتخابی مہم کے بعد صورت حال بعض جماعتوں کے حق میں اور بعض جماعتوں کے خلاف نظر آتی ہے۔ 20دن پہلے پی ٹی آئی اور پی پی پی کو سبقت حاصل تھی۔ 20دن بعد ایم ایم اے اور پی پی پی کو سبقت حاصل ہوئی ہے۔ مسلم لیگ کسی بھی وقت آگے بڑھ کر ایک پارٹی کی جگہ لے سکتی ہے۔ اے این پی کے دور حکومت میں چترال کے اندر ریکارڈ ترقیاتی کام ہوئے لیکن پارٹی کی صوبائی قیادت نے چترال کے اندر انتخابی مہم میں دلچسپی نہیں دکھائی۔ چترال میں انتخابات کا جو نتیجہ آئے گا وہ مستقبل کے لئے ضلع کی ترقی یا پسماندگی کا رُخ متعین کرے گا۔ رائے عامہ کے مقابلے میں ایک ”رائے خاصہ“ بھی ہوتی ہے۔ رائے خاصہ یہ ہے کہ وفاق اور صوبے کے اندر 3یا 4جماعتوں کی جو اتحادی حکومتیں بنیں گی چترال کے نمائندوں کو ان حکومتوں کا لازمی حصہ ہونا چاہیئے ورنہ کچھ بھی ہاتھ نہیں آئے گا۔