بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
ایک ایسے انسان کی زندگی کے متعلق کچھ لکھنے کیلئے قلم اٹھایا ہے جس کی پاکیزگی، قوت لیڈری روز روشن کی طرح عیاں تھا۔ بلاشبہ میرا یہ قلم اٹھانا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ کہاں مجھ سے اس شخص کے بارے میں کچھ لکھنے کا حق ادا ہو سکے گا۔ لیکن اس اخلاص پیکر کی محبت نے زمانہ ماضی میں باقی لوگوں کے دل جیتنے کے ساتھ میرا بھی دل جیت لیا تھا، اسی لئے اس شکستہ قلم سے کچھ منتشر الفا ظ اور غیر مرتب جملے لکھنے کی ہمت پیدا ہوگئی۔ اگرچہ بہت ہی مختصر وقت ان کی صحبت میں گزارنے کا موقع ملا لیکن اس عرصے میں ہم نے ایسی زندگی دیکھی کہ ہمیں اپنی زندگی گزارنے کیلئے کئی راہیں ملتی ہیں۔ بعض لوگ عجیب ہوتے ہیں ہاں بہت عجیب ہوتے ہیں۔ جب ساتھ ہوتے ہیں تو مشکلات کو سہل کر دیتے ہیں اورجب وہ کچھ کر جاتے ہیں تو ان کی زرین کارناموں کی یاد سے دل کو راحت پہنچتی ہے اور ہمیشہ ان کی تصویر سامنے رہتے ہے۔ اگر آدمی بھلانا بھی چاہے تو بھلا نہیں سکتا۔ تاریخ کے سنہرے صفحات میں جو نام موتیوں کی طرح جگمگا رہے ہوتے ہیں یعنی پیکر اخلاق،جبل استقامت کسی خطہ زمین میں تلاش کیا جاتا تو وہ تھا جناب ملک خالد خان صاحب جو کہ صوبہ خیبر پختونخواہ کے آل پرائمری ٹیچر ایسو سی ایشن (APTA)کے صدر تھے۔ جناب ملک خالد خان صاحب بیک وقت اعلی تعلیم یافتہ شخصیت ہونے کے باوجود ایک اعلی و ارفع سیاستدان، مدبراور نڈر لیڈر بھی تھا۔ وہ اپنے کارکنوں کے لیڈر ہی نہیں بلکہ استاد کی حیثیت بھی رکھتے تھے۔
جناب ملک خالد خان صاحب کی آنکھوں کی چمک، خود اعتمادی اور انداز گفتار اس بات کا منہ بولتا ثبوت تھا کہ یہ عام آدمی نہیں تھا بلکہ کسی مقصد کے حصول کیلئے یہ اپنا سب کچھ بیچنے کو تیار تھا۔ جناب ملک خالد خان صاحب کے ساتھ بیتے چند لمحات کو محدود علم اور دستیاب ماحول میں مختصراََ سپرد قلم کرنے جارہا ہوں۔ ANPحکومت میں جناب ملک خالد خان صاحب صدر (APTA)نے ایک تحریک چلائی تھی جس میں اساتذہ کی بھلائی کیلئے اور اساتذہ کے سکیل بڑھانے کیلئے جس طرح وہ حکومت سے مطالبہ کئے تھے وہ کسی درجہ کم نہ تھے۔ موصوف مرحوم کی اولین اور نمایاں ترجیح یہ تھی کہ جب تک اساتذہ کا خیال رکھے گا تو وہ ان سکولوں کی حالت بہتر بنائیں گے اور اطمینان بخش نتائج پیش کریں گے۔ ان کی ترجیح یہ تھی کہ اساتذہ کے سکیل 7سے لیکر 15تک بڑھائے جائیں۔ لیکن حکومت کی نااہلی اور انکاری کے باعث صدر (APTA)اساتذہ کی بھلائی کیلئے معاشی سرگرمیوں کی تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے اپنی روایتی قوت کے ساتھ میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا۔ 30مئی 2013ء کو ایک تاریخی احتجاج کیا۔ اس احتجاج میں کم از کم 30ہزار اساتذہ کرام نے شرکت کی۔ اس کے بعد صوبائی اجلاس میں اس پر تفصیلی غور و خوض کے بعد اس کے عملی پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا۔ اور بالآخر پرائمری اساتذہ کا سکیل 15تک بڑھانے کا حتمی فیصلہ کیا گیا۔ وہ مزید اساتذہ کا سکیل 16سے 17تک بھی لے جانے کیلئے اپنا تن من دھن قربان کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار تھا۔ لیکن بد قسمتی سے گزشتہ دو سالوں سے صحت کی خرابی کیوجہ سے پریشان تھا لیکن اس کے باوجود وہ اپٹا کی سرگرمیوں میں ہمہ وقت شریک رہا۔
جناب ملک خالد خان صاحب عام انسان تھے اور انسانوں سے پیار اور انہیں عزت دینے والے دلیر لیڈر تھا۔ بلاشبہ ان کی رحلت سے پیدا ہنے والا خلا ان کی خاندان اور خصوصاََ اساتذہ کرام کیلئے بڑا صدمہ ہے۔23مئی 2018بروز بدھ وہ اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔ اللہ تعالی موصوف مرحوم کو خلد بریں میں اعلی مقام نصیب فرمائیں،ان کی مرقد پر اپنے انوار کی بارش برسائیں اور پسماندگان کو صبر جمیل نصیب عطا فرمائیں۔ آخر میں ایک مصرعہ مرحوم کے نام۔۔۔
یہ فخر تو حاصل تھا بھلے ہے یا برے ہیں
دوچار قدم ہم بھی تیرے ساتھ چلے تھا
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات