قوم کے ہر فرد کو اپنے کام سے کام ہو تو قوم کامیاب ہوتی ہے۔۔ہر مشکل مرحلہ طئے کرتی ہے۔۔ہم بحیثیت قوم غیر زمہ دار ہیں۔۔دوسروں پہ انگلی اٹھانے سے پہلے اپنا سب کچھ بھو ل جاتے ہیں۔۔اگر ہر ایک اپنی زمہ داری کا حساس کرے تو قوم ایک پیچ پہ ہو جائے گی۔۔باتوں کی حد تک ہم عوام ہیں کہ خواص پتہ نہیں چلتا۔۔ہماری باتیں بھاری بھاری ہوتی ہیں۔۔الفاظ کے گورکھ دھندے ہیں۔عملی نمونے کی دور دور تک مثالیں نہیں ملتیں۔۔ہمارے ہاں بادشاہ سلامت کا راج ہے۔۔ہمیں حمایت۔۔ووٹ کا تقدس۔۔لیڈر کی اہمیت۔۔نمائندے کی صلاحیتیں پڑھائی جاتی ہیں۔۔ہمیں خواب دیکھائے جاتے ہیں۔۔پھر دوڑ دھوپ ہوتی ہے۔۔رشتے ناطے۔۔دوستیاں تعلقات وغیرہ کی از سر نو کلاسیں لی جاتی ہیں۔۔وفاداریاں نبھائی جاتی ہیں۔۔نغرہ مستانہ بلند کئے جاتے ہیں۔۔ہلچل ہوتی ہے۔۔دمادمام مست قلندر ہوتا ہے۔۔پھر جب نتیجہ آتے ہیں تو ”عام“ انتخابات ”خاص“ بن جاتے ہیں۔۔فاصلے بڑھتے ہیں۔۔بادشاہ سلامت ایوان پہنچ جاتے ہیں۔”عام“ کے سہانے سپنے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔۔”خاص“ کرسی کی مدہوشیوں میں کھو جاتے ہیں۔۔وہی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں۔۔وہی کچیہری کی نامعقولیاں۔۔وہی صاحب کے دفتر کے سامنے سڑنا۔۔وہی پولیس گردی کی شکایتیں۔۔وہی تعلیمی اداروں میں کاہلی سستی۔۔وہی ٹھیکوں میں گھپلے۔۔وہی توتکار جھجٹ۔وہی عام پاکستانی۔۔وہی جن کو ووٹ کی تقدس کا پہاڑہ پڑھایا گیا تھا۔۔ اقتدار کی گرد میں کہیں روپوش کئے جاتے ہیں۔۔ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پرٹیکسی کے ہچکولوں سے تڑپنے والے مریض اسی طرح آہ و بکا میں مبتلا ہیں۔۔۔دوسری طرف بی ایم ڈبلو اور مرسیڈیز فراٹیں بھر رہی ہیں۔۔ان کے اندر اقتدار کے نشے میں دھت قوم کے نمائندے برانجمان ہیں۔۔ایک طرف حکمران اپنی بیٹی کو کٹہرے میں دیکھ کر تڑپ اٹھتا ہے حالانکہ وہ اپنے آپ کو فخر موجوداتﷺ کے پیروکار کہتے تھکتے نہیں۔وہ ہستی جنھوں نے فرمایا تھا کہ اگر میری بیٹی فاطمہ ؓ بھی چوری کرتی تو محمدﷺ اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔۔ایک ۰۲۸۱ دنوں میں صرف بیس دفعہ قوم کی نمائندگی کے لئے ایوان آتے ہیں۔۔مگر عضب ہے کہ عام پاکستانیوں کو ان سب سے پیار ہے۔۔جو ایوانوں میں بیٹھے ہیں ان سے بھی۔۔جن کے کاندھوں پہ سٹار ہیں۔جن کے سینوں پہ فیٹے ہیں۔۔جو گاؤن پہنے ہوئے ہیں۔۔جن کے نیچے قیمتی کاریں ہیں۔۔جن کی حویلیاں اور جائدادیں ہیں۔جو سنہری پایوں والی کرسیوں میں بیٹھے ہیں۔۔سب سے پیار ہے۔۔عضب ہے ان کو اپنا لیڈر اپنا رہنما سمجھتے ہیں۔۔کیونکہ ان کی زندگیاں عذاب ہیں ان کو اپنی پیٹ کی فکر معاش اتنی ستائی ہوئی ہوتی ہے کہ ان کی اور طرف دھیان تک نہیں ہوتا۔۔سکول جاتا بچہ اگر سکول جانے کی بجائے کہیں ریڑھی لگا کے بیٹھے یا سڑک کنارے بیٹھ کے بڑوں کے بوٹ پالش کرے۔۔قوم کی جوان ہوتی بچی یہ پتہ نہ ہو کہ اس کے بھی خواب ہیں اس کو بھی نئے کپڑوں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اس کے سینے میں بھی طوفان اٹھتا ہے۔۔ تعلیم و تربیت کا بھی حق ہے۔۔ایسے لوگ ہوں جن کے سر پہ چھت کا سایہ نہ ہو ایسے گھر ہوں جس میں چولہا نہ جلتا ہو۔۔ایسے مریض ہوں جو بنیادی علاج سے محروم ہوں اور ایڑیاں رگڑ رگڑکر مر رہے ہوں اور ان کی کفن دفن کا بھی بندوبست نہ ہو۔۔ایسی بے روزگاری ہو کہ تعلیمیافتہ نوجوان سڑکوں پہ عمریں گذار دیں۔۔اور پھر لوگ امن کو ترس رہے ہوں۔۔ایسے میں ان کو کس حکومت کی،کس انتخابات کی،کس ووٹ کی فکر ہوگی۔۔ان کے پاس کونسی آس ہوگی۔۔کونسا خواب ہوگا۔۔اور حکومت بھی ایسی کہ صوبے اپس میں ایک دوسرے کو بلیم کریں۔۔پارٹیاں اپس میں ٹکرائیں۔۔ایک دوسرے کی راہوں میں کانٹے بچھائیں۔۔ایک صوبہ ملازمین کو عیدیاں دے دوسرا بجٹ پیش نہ کرسکے۔۔محافظیں کی نیتوں پہ شک ہو۔۔سر فروشوں پہ کوئی فخر نہ کر سکے۔۔انصاف کو چلنچ ہو۔۔ایسے میں ”عام“ اور ”خاص“ میں فاصلے اتنے بڑھتے ہیں کہ کسی کو ایک دوسرے کی خیر خبر نہیں ہوتی۔۔اب ”خاص“ کے اقتدار کے ساتھ ”عام“ کی کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔۔یہ پاک سر زمین سب کی ہے اس پہ سب کا حق ہے۔۔اس سے پیار کرنے کا سب کو آرزو ہے۔۔لیکن نہ ”عام“ کے پاس پیار کرنے کا وقت ہوتا ہے نہ خاص کے پاس۔۔”عام“ زندہ رہنے کی جدوجہد میں سر گردان رہتے ہیں اور”خاص“اقتدار اور دولت کے نشے مدہوش رہتے ہیں۔۔ سوال ہے کہ ہم بحثیت قوم بھوکی کیوں ہیں۔۔جس کے پاس کھربوں ہیں وہ اس سے بھی بھوکا لگتا ہے جس کے پاس کچھ نہیں۔۔ہم جو”عام“ ہیں ہمیں سب سے پیار ہے۔۔یہ عمران۔۔یہ نواز۔۔یہ زرداری۔۔یہ سراج الحق۔۔یہ مولانا فضل الرحمان۔۔یہ اے این پی۔۔یہ ال پاکستان میم نون۔۔یہ سر فروش جنرلز۔۔یہ پاسباناں قوم سب ہماری آنکھوں کے تارے ہیں شرط یہ ہے کہ ان کواگر اس خاک پاک سے پیار ہے۔۔اس کی ترقی خوشحالی اپنا فرض سمجھتے ہوں۔۔ان کو ہماری فکر ہو۔۔ان سب کا مقصد صر ف ترقی یافتہ اور خوشحال پاکستان ہو۔۔اگر ”خاص“ کے نزدیک ”عام“ ا ہم ہوں تو”عام“ انتخابات بھی ”خاص“ ہونگے۔۔یاد رکھنا کہ پاک سر زمین میں کوئی چیز ”عام“ نہیں۔۔اللہ اس کو تا قیامت سلامت رکھے ۔۔۔۔۔۔
تازہ ترین
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات
- ہومنوجوان عالم دین قاضی ولی الرحمان انصاری کا اعزاز
- ہومریجنل پولیس آفیسر ملاکنڈ کا دورہ لوئر چترال