شکریہ ایم این اے چترال شہزادہ افتخار الدین (انعام اللہ ممبر نیشنل یوتھ اسمبلی)

Print Friendly, PDF & Email

میں اپنی اور پورے اپر چترال کی عوام کی طرف سے ایم این اے چترال شہزادہ افتخار الدین کا تہ دل سے مشکور ہوں۔۔۔
چترال کی گزشتہ ستر سالوں کی محرومیاں اور مایوسیاں ایک پل بھر میں ختم تو نہیں ہو سکتے اور نہ ہی ترقی کے ہرشعبے میں پسماندہ اس ضلع میں ترقی پل جھپکنے میں وقوع پذیر ہو سکتی ہے کیونکہ پندرہ ہزار مربع کلو میٹر پر پھیلی ہوئی اس ضلع کے لیے بہت زیادہ وسائل کی ضرورت پڑے گی۔ کیونکہ یہ ضلع پورے کا رقبے کے لحاظ سے ایک چوتھائی ہے جبکہ اس کی آبادی حالیہ مردم شماری کے مطابق بھی پانچ لاکھ سے بڑھنے نہیں پائی جبکہ ترقیاتی فنڈز آبادی کے تناسب سے بھی دئیے جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں یہ سیاسی قیادت پر منحصر ہے کہ وہ علاقے کی پسماندگی اور دور افتادگی کے پیش نظر حکومت وقت سے خصوصی فنڈزاور مراعات حاصل کر کے یہاں پسماندگی کو دور کرنے میں کردار ادا کرے۔ زندگی کے ہر شعبے میں پسماندہ چترال کی قسمت اس وقت جاگ اٹھی جب گزشتہ عام انتخابات میں چترال کی شاہی خاندان کے چشم و چراغ شہزادہ افتخار الدین کو آل پاکستان مسلم لیگ کی ٹکٹ پر ایم این اے منتخب کر لئے گئے جس نے اپنی سیاسی بصیرت اور دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے حکومت وقت کا قربت حاصل کر لیا اور ان کا یہ فیصلہ چترال کے عوام کی دل کی آواز تھی جو کہ اپنے علاقے کی ترقی چاہتے تھے اور ایوان زیریں میں تن تنہا اے پی ایم ایل کے جھنڈے تلے رہ کر اور حکومت وقت پر تنقید کے تیر و نشتر برسا کر کچھ حاصل نہیں کر سکتاتھا بلکہ اس کا نقصان چترال کو ہوتا۔ شہزادہ افتخار الدین نے ان چار سالوں میں وہ کارنامے سرانجام دئیے جو کہ گزشتہ ستر برسوں میں نہ ہو سکا تھا اور یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان کی کاوشوں اور کاموں کا زیادہ ہدف چترال کا جدید نسل ہے۔ تعلیم ہو یا ٹیلی کمیونیکیشن کا جدید نظام یا بے روزگاری کے جن کو بوتل میں بند کرنے کے لیے ماربل سٹی کا قیام اور اس سے قبل بجلی کی پیداوار کے لیے انقلابی اقدامات یہ سب چترال کو تیز رفتاری سے آگے لے جانے اور اسے جدید دنیا کے ساتھ دوڑ میں شریک کرنے کے قابل بنانے کا باعث بنیں گے۔ لواری ٹنل پراجیکٹ پر کام گز شتہ پی پی پی حکومت میں تقریباََ بند ہو چکا تھا اور چترالی قوم اس سلسلے میں امید و ناامید ی کے درمیان لٹکے ہوئے تھے۔ ریکارڈ سے ثابت ہے کہ یہ شہزادہ افتخار تھا جس نے حکومتی ایوانوں میں اپنا اثر و رسوخ کا دائرہ قائم کر لیا پراجیکٹ میں دوبارہ جان ڈال دی اور وزیرا عظم نواز شریف کو اس بات پر مجبور کیا کہ چار سال کی قلیل عرصے میں 80فیصدکام مکمل ہوا اور اب صرف آٹھ منٹ میں لواری پاس سے آر پا ہونا ممکن ہو گیا ہے۔ اسی طرح گولین گول ہائیڈوپاؤر پراجیکٹ بھی سست روی کا شکار تھا اور اس میں 80فیصد کام ابھی باقی تھا جب نواز شریف نے عناں حکومت سنبھال لیا۔شہزادہ افتخار الدین نے بجلی کی اس میگا پراجیکٹ کو چترال کی ترقی کے لیے زینہ سمجھتے ہوئے اس کے لیے فنڈز کی ایلوکیشن کرانے کی جدوجہد میں لگ گئے جس کے نتیجے میں اس 3فروری کو 108میگاواٹ پیداوری گنجاش کا یہ پاور پراجیکٹ کا باقاعدہ افتتاح ہونے جا رہا ہے جس سے تیس میگاواٹ بجلی چترال کے لیے مختص کرادی جو کہ چترال کی آٗندہ کئی دہائی سالوں میں بجلی کی ضرورت کو پرا کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس شہزادے نے اپنے علاقے کے لیے جو کام کیا وہ بغیر کسی حرص اور لالچ کے لیے کیا اور اس نے نہ صلے کی تمنا کی اور ستائش کی آرزو کی اور ان کے کئی ایسے کارنامے ہیں جن کے بارے میں بہت کم لو گ جانتے ہیں کیونکہ اس نے دوسرے لیڈروں کی طرح ایک بلبل روش کر کے یا ایک حفاظتی پشتے کے لیے دو لاکھ روپے دے کر نہ جلسہ کرایا نہ اخبار میں بیان چھپوایا اور نہ ہی فیس بک کا سہارا لیا۔ چنانچہ ایم این اے شہزادہ افتخار کا وہ کام جو اس نے سرانجام دیا وہ یونیورسل سروس فنڈ کے ذریعے چترال کے 95فیصدایریا میں موبائل فون سروس کا اجراء ہے۔ چترال میں آبادی کی کمی کے پیش نظر کوئی موبائل فون کمپنی اس کے چپے چپے میں سروس پہنچانے کو تیار نہیں تھا کیونکہ اس کے لیے ٹاورزایستادہ کرنے اور سروس کو چالو کرنے میں اربوں روپے لگ رہے تھے جبکہ اس کے بدلے میں بزنس کا امکان بہت ہی کم۔ اس شہزادے نے وفاقی یونیورسل سروس فنڈ نے اس کے لیے چار ارب روپے منظور کر دی۔ جس کا ٹینڈر ٹیلی نار نے جیت لیا اور آج لواری ٹاپ سے لے کر بروغل اور تریج کے شاگروم اور تورکھو کے کھوت اور لوٹ کوہ کے گبور تک ٹیی نار کے سگنلز دستیاب ہیں اور اسے کہتے ہیں کسی لیڈ کا کارنامہ اسی طرح چترال کے اندر بین الاقوامی معیار کی سٹرکوں کو کوئی تصور نہیں کر سکتا تھا لیکن سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے سامنے اس نے مطالبعے کو اس طرح پیش کیا کہ میاں صاحب کو انکار کرنے کے لیے کوئی الفاظ نہیں ملے اور انہیں چترال شندور روڈ اور ایون کالاش ویلیز روڈ دے دئیے گئے جن کے لیے فنڈز بھی مختص ہو گئے ہیں اور اس سال کام شروع ہو گا۔ اسی طرح جنگلات کی بے دریغ کٹائی کر کے سوختنی لکڑی کے حصول کو روکنے کے لیے گیس پلانٹ بھی چترال، دروش اور اوین کے ساتھ اپر چترال اور گرام چشمہ کے لیے منظوری بھی ایک وژن رکھنے والی قیادت ہی کام ہے اور یہ شہزادہ افتخار بھی سوچ سکتا تھا۔ چترال یونیورسٹی کا قیام پی ایس ڈی پی کے 290 میلین روپے کی گرانٹ کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ کیونکہ صوبائی وزیراعلی اور پی ٹی آئی کے قائد نے اس یونیورسٹی کا سنگ بنیاد تو رکھا لیکن اس کے لیے انہوں نے صرف 20ملین روپے ہی دے سکے اور وفاقی حکومت سے اتنی خطیر رقم دلوانا بھی اس شہزادے کا کام تھا۔ چترال کے عوام اپنے محسنوں کو کبھی فراموش نہیں کرتے۔ انہیں کسی کو سمجھنے میں غلط فہمی ہو سکتی ہے اور وہ اپنے محسن کو پہچاننے میں دیر ضرور کرتے ہیں لیکن وہ احسان فراموش ہر گز نہیں ہیں اور آج کل میڈیا اور انفارمیشن کے اس دور میں ان پر سب اشکار وہ جانے والا ہے کہ وفاقی حکومت کی چترال کے لیے ان گرانقدر منصوبوں کے پیچھے اس شہزادے کا ہی ہاتھ تھا جو کہ کام، کام اور کام پر یقین رکھتا ہے۔