ایف سی آر کے خاتمے میں تاخیرنہ کیاجائے۔۔تحریر: عنایت اللہ اسیر

Print Friendly, PDF & Email

فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے یا الگ صوبہ بنانے کے انتظامرمیں ایف سی آر کے اختم کرنے کا مسئلہ لیٹ نہ کیاجائے۔ اس مسئلے پر اگر ریفرنڈم کرانا ہو توپورے کے پی کے میں اس بات پر ریفرنڈم کردیا جائے کہ کی فاٹا کو الگ صوبہ بنایا جائے یا ضم کیاجئاے یا کے پی پے کو دوصوووں میں تقسیم کیا جائے۔ ریفرنڈم کے تین سوالات:
۱۔ فاٹا کو کے پی کے میں ضم کیاجائے۔
۲۔ الگ صوبہ بنایا جائے
۳۔ کے پی کے جعرافیائی قدرتی تقسیم کے مطابق دو صوبے بنایا جائے۔
دو صوبے کیوں؟
اگر فاٹا اسی نقشے کے مطابق الگ صوبہ بنایا گیا تو اس کا مرکز جہاں بھی ہوگا بلوچستان سے دیر تک کا دوہزار کلومیٹر دوشور گزار علاقہ انتظامی طور پرکنٹرول کر نا ممکن نہ ہوگا۔ اس لئے کے کے پی کے اور فاٹا کے تمام بانشدون کو جعرافائی حقائق کے مطابق دو صوبے بنانا ہی اس کے بانشسندونکے تعمیر اور ترقی انٹامیہ بہتر اوعر تعلیم وصھت اور انصاف کے حصول کے لئے مناسب ہوگا،۔
نقشہ:
کوہاٹ ٹنل سے شمالی وزیر ستان اور جنوبی وزیرستان تک الگ صوبہ جس کا مرکز بنوں یا ڈیرہ اسماعیل خان اور کرم ایجنسی کے کوہاٹ ٹنل سے پشاور کی طرف کے تمام علاقے خیبر ایجنسی، مہمند ایجنسی، باجوڑ ا یجنسی اور ملاکنڈ ایجنسی کو کے پی کے کا حصہ بنایا جائے۔
اس کام کو دھرنوں کے ذریعے حل کرانے کی کوشش کرنے کی بجائے پی پی پی، پی ایم ایل این اور پی ٹی آئی، جماعت اسلامی اور جے یو آئی اپنے 2018کے الیکشن میں جانے سے پہلے اپنے انتخابی منشور میں فاٹا کے متعلق اپنی اپنی پالیسی واضح کرکے الیکشن میں حصہ لیں اور 2018ء کے الیکشن میں قومی اور صوبائی حکومت جس سیاسی پارٹی کا بنے وہ پوری سنجیدگی سے اس مسئلے کو فاٹا کے عوام کی مرضی اور ریفرنڈم کے نتائج کے مطا بق حل کرلے۔ جلدبازی کے فیصلے ملک کو نقصان پہنچانے کے متراد ف ہوں گے۔ ایف سی آر کا خاتمہ اورموجودہ عدالتی سہولیات، تعلیمی مراکز اور صحت کے موجودہ سہولیات میں فاٹا کے عوام کو سہولیات دوگنی کرکے دے دی جائیں اور کیمپ کورٹس کے ذریعے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے سنگل اور فل بینچ کے وزٹس کو سہولیات اور مراعات کے ساتھ شروع کیا جائے۔ تاکہ افغانستان میں قابض امریکہ اور بھارت ان قبائلی علاقوں کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ کرسکیں۔ ایف سی آر کے خاتمے سے ہی قبائلی علاقے پاکستان کا آئینی دستوری حصہ ہوجائیں گے۔ ہمارے نادان دوستوں کی قومی اسمبلی میں ہرزہ سرائیوں کا جواب بھی ہوگااور فاٹا کے عوام کے آئینی حقوق کے بحالی کی طرف پہلا مثبت قدم ہوگا۔