”چترال کا پہلا یتیم خانہ محافظ بیت الاطفال“
لفظ یتیم کتنا عجیب و غریب ہے، اس لفظ کو سنتے ہی دل میں احساس محبت جنم لیتا ہے۔ یتیم بچے یا بچی کیلئے ہمارے دل میں محبت اور پیار میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اللہ کرے کوئی یتیم نہ ہو، اس کا باپ اور ماں سلامت رہیں۔ یتیم کو ن ہے؟ یتیم ہر ایسے بچے کو کہتے ہیں جس کا والد اس کے بالغ ہونے سے پہلے وفات پا جائے، اسی طرح جس بچے اور بچی کے والد اور والدہ دونوں اس کے بالغ ہونے سے پہلے وفات پا جائے انہیں بھی ”یتیم الابوین“ کہا جاتا ہے۔ یقینا یہ محبتوں کے زیادہ مستحق ہوتے ہیں۔ اسلام ایک ایسا دین ہے جس نے معاشرے کے پسے ہوئے محروم لوگوں کو ہمیشہ اوپر اٹھایا ہے۔ ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ اولاد سے محبت فطری چیز ہے۔ ہر شخص اپنی اولاد سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔ وہ چھوٹے بچے کوچومتا ہے، گلے سے لگاتا ہے اس کی پرورش کرنے اور اس کو زندگی کی سہولتیں مہیا کرنے کیلئے صبح وشام محنت کرتا ہے، گھر آتا ہے تو سیدھا بچوں کے پاس جاتا ہے، وہ بھی بھاگتے ہوئے آتے ہیں، اپنے بابا کے ٹانگوں کے ساتھ چمٹ جاتے ہیں، باپ بے اختیار بوسے دینے لگ جاتا ہے، بچے توتلی زبان میں والد کو باتیں سناتے ہیں، کبھی شکایت لگاتے ہیں، والد بچوں کے باتیں سن کر بے اختیار مسکراتا ہے، خوش ہوتا ہے، اسی کا نام زندگی ہے۔ اسی کے برعکس اگر یتیم بچوں کو دیکھا جائے تو یہ فطری چیزیں محبت پیار معاشرے میں اسے نہیں ملتا ہے۔ ان یتیم معصوم بچوں کے جذبات و احساسات کو کیسے کچلا جاتا ہے۔ وہ نفسیاتی مریض بن کر رہ جاتے ہیں۔ سکول جاتے بچوں کو جب وہ دیکھتے ہیں ان کے اندر کیسی قیامت گزر جاتی ہے، اس کا تصور کریں تو رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ہم کو سوچنا چاہئے ہمارے بچے بھی کل یتیم ہو سکتے ہیں۔ اپنے ارد گرد نظر دوڑانی چاہئے، ہم ایسے نظر دوڑا کے دیکھیں گے تو ہمیں اپنے اردگرد بچے بد ترین حال میں نظر آئیں گے۔ محبوب ظفر صاحب نے کیا خوب منظر نگاری کی ہے۔
نگاہ نہ پڑنے پائے یتیم بچوں کی
ذرا چھپا کے کھلونے دکان میں رکھنا
یتیم ہونا کوئی کمزوری، عاریاََ محتاجی کی علامت نہیں ہے۔ یتیم بچہ معاشرے میں کسی بھی لحاظ سے کسی سائبان والے بچے سے کم نہیں ہوتا۔ اسلام میں یتامی کے حقوق کے حوالے سے قرآنی آیات اور احادیث میں بڑی شد و مد کے ساتھ ذکر آیا ہے۔ اسلامی معاشرہ بے سہارا اور کمزور طبقے کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتا ہے۔ یتیموں کے ساتھ بہتر سلوک اور ان کے قیام و طعام کا انتظام میں سبقت لے جانے کو اسلام نے کافی پسند کیا ہے۔ جو یتیموں کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہے، اس کو اللہ اور اللہ کے رسول ؐ نے بہت پسند کیا ہے، اور قیامت کے دن اس کے لئے اعزاز و اکرام و انعام کی خوشخبری بھی سنائی ہے۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ ہمارے معاشرے کی بہت سے باصلاحیت بچے یتیم اور بے سہارا ہوجانے اور مناسب تعلیم اور بنیادی ضروریات زندگی پوری نہ ہونے کی وجہ سے نہ صرف خود مختلف ذہنی و دیگر مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں بلکہ معاشرے کیلئے بھی مسائل پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ اس صورت حال کے پیش نظر ضرورت محسوس کی گئی ہے کہ ایسے یتیم اور بے سہارا بچوں کے لئے ایک ایسا ادارہ بنایا جائے جس میں تعلیم، رہائش، کھانا، لباس اور روزانہ جیب خرچ کے ساتھ ساتھ اچھی تربیت بھی دی جائے تو یہ بچے معاشرے کے مفید شہری بن کر قوم و ملت کی خدمت کر سکتے ہیں۔ اس فکر وسوچ کو فوری طور پر عملی شکل میں ڈھالنا اس وقت نا گزیر ہوگیا۔ جب ان یتیم بچوں کے سر پر ہاتھ رکھنے والا کوئی نہ تھا۔ اس المناک صورتحال کو دیکھتے ہوئے نوجوان عالم دین مولانا عماد الدین صاحب اپنے درد دل رکھنے والے دوستوں کے تعاون سے ان یتیم اور بے سہارا بچو ں کو سہارا فراہم کرنے کیلئے عظیم الشان ادارہ ”محافظ بیت الاطفال“ کی بنیاد رکھی۔
اس ادارے کے مقاصد میں سب سے اہم یہ ہے کہ ان بچوں کو ایسی معیاری تعلیم و تربیت دی جائے کہ یہ وہ جوان ہو کر احساس کمتری کا شکار نہ ہو۔ او ر ان کے ذہن میں یہ بات نہ رہے چونکہ وہ یتیم تھے اسلئے ویسی تعلیم وتربیت نہ مل سکی جو عام بچوں کو ملتی رہی ہے۔ ”محافظ بیت الاطفال“ میں اس وقت 5سال سے لیکر 15سال تک کے بچے رہائش پذیر ہیں۔ صبح بچے نماز کے وقت اٹھتے ہیں۔ باجماعت نماز کی ادائیگی کے بعد ناشتہ اور اسکول کی تیاری کا مرحلہ ہوتا ہے، بعد ازاں بچے اسکول جاتے ہیں۔ یتیم بچے چترال کے بہترین پرائیوٹ سکولوں میں پڑھنے جاتے ہیں۔ جہاں عام بچوں سے بھی ان کا میل جول ہوتا ہے۔ ہر بچے کو دوسرے روز کپڑے تبدیل کرائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر بچے کو تولیہ، صابن، ٹوٹھ پیسٹ، کنگھی، تیل اور ضروریات زندگی کی دیگر اشیاء فراہم کی جاتی ہے۔ اسکول سے واپسی پر بچوں کیلئے کھانے کا انتظام کیا جاتا ہے جس کے لئے باقاعدہ ایک باورچی تعین ہے۔ دوپہر کھانے کے بعد ادارہ میں مدرسہ کا کلاس لگتا ہے جو باقاعدہ قاری صاحب تعین ہے۔ اس کے بعد سکول ٹیوشن کیلئے ایک ٹیچر آتی ہے اور سکول کے اسباق پڑھاتے ہیں۔ عصر کے بعد بچے کھیل کود میں وقت گزارتے ہیں۔ دن بھر کے اوقات میں پانچ باجماعت نمازیں پڑھائی جاتی ہے۔ ادارہ میں بچوں کیلئے کھانے کا مینیو بنایا گیا ہے جس کے مطابق بچوں کو روزانہ مختلف اور متوازن غذا دی جاتی ہے۔
مولانا عماد الدین صاحب گزشتہ برس سے معاشرے کے کمزور ترین طبقات کے حقوق اور خوشحالی و بحالی کیلئے اپنی مدد آپ کے تحت تگ و دو میں مصروف عمل ہے۔خاص کر یتیم خانہ میں مقیم یتیم، بے آسرا اور مستحق بچوں کے خصوصی اقدامات ”محافظ بیت الاطفال“ کا خاصہ ہے۔
یاد رکھئے! آج کا یتیم کل کا جوان ہوگا اور حقیقت یہ ہے کہ بچپن میں بچہ جن محرومیوں کا شکار ہوتا ہے ان کا ازالہ ممکن نہیں ہوتا، اسلئے ہمارا فرض بنتا ہے کہ یتیم بچہ، جو ملک و قوم کا وارث بننے جارہا ہے، اُسے زیادہ سے زیادہ شفقت و محبت سے نوازیں، اگر بچپن میں یتیم کو آزاد چھوڑ دیا گیا اور اس نے غلط تربیت پائی تو یہ معاشرے کا مفید شہری ثابت ہونے کے بجائے خطرہ بن جائے گا۔ مسلم معاشرے کیلئے ہر یتیم بچہ رنگ، نسل، مذہب کے تمیز کے بغیر اپنے ہی بچوں کی طرح عزیز ہے۔ اسلئے معاشرے کے ہر یتیم ہمارے بچے ہیں اور ان کی دیکھ بال کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہیں۔ ضلع چترال کا باشعور طبقہ یتیم بچوں کی درپیش مسائل کو سمجھے اور اس فورم کا دست بازو بنئے۔ معاشرے میں یتیم بچے ہم سب کی توجہ کے طالب ہوتے ہیں۔ کیونکہ یتیم ہونا انسان کا نقص نہیں بلکہ منشائے خداوندی ہے کہ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اس نے اپنے محبوب ترین بندے سید المرسلین ؐ کو حالت یتیمی میں پیدا فرمایا کہ آپؐ کی والد ماجد آپؐ کی ولادت با سعادت سے بھی پہلے وصال فرما چکے تھے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے ”الم یجدک یتیما َ فاؤیٰ“کیا اللہ نے آپ کو یتیم پاکر جگہ نہیں دی۔ یتیم کی پرورش کرنا معاشرے کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ معاشرے کی ذمہ داری بنتا ہے کہ وہ یتیم کو گلے سے لگائیں، اس کی ہر ضرورت پوری کریں، یتیم سے ہمدردی کرنے او ر مسکین کو کھانا کھلانے سے دلوں کا سختی کا علاج ہوجاتا ہے۔
خدانخواستہ اگر ان یتیم بچوں کا سہارا نہ بنایا گیا اور ان کی تعلیم و تربیت کیلئے ٹھوس اقدامات نہ کئے گئے تو مستقبل میں خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ اس ضمن میں اس نقطے کو سمجھنا اور نمایاں کر نا بہت ضروری ہے کہ یتامی کی کفالت کسی ایک فرد یا ادارے کی ذمہ داری نہیں بلکہ معاشرے اور قوم کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہر بچہ میں خدادا د صلاحیتیں ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یتیم بچے کو آگے بڑھنے کے یکساں مواقع فراہم کئے جائیں تاکہ وہ ایک مفید شہری کے طور پر ملک و قوم کی خدمت کر سکے۔ یتیموں کی دیکھ بالی معاشرتی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ باعث ثواب بھی ہے۔ یتیم بچوں کو تعلیم و تربیت دینا لائق تحسین اقدام ہے۔ میں چند دن پہلے ”محافظ بیت الاطفال“ گیا۔ یقین مانے مجھے صاف ستھری خوبصورت اسکول یونیفارم میں پیارے بچے ادھر اُدھر بھاگتے دوڑتے اچھے لگ رہے تھے۔ ایسا محسوس ہوا مجھے جیسے ماؤں نے ابھی ابھی بچوں کو سکول کیلئے تیار کیا ہو۔
”میرے ماں باپ نہیں ہے اور نہ ہی اپنا گھر۔ مجھے پڑھنے لکھنے کا بے حد شوق تھا لیکن کم سن ہاتھوں میں اتنی جان نہیں کہ کسی ہوٹل پر کام کرکے یا مزدوری کرکے پڑھ سکتا۔ یہ الفاظ 10سالہ بچے کے ہیں جو گزشتہ برس سے محافظ بیت الاطفال چترال میں مقیم ہے اور اب وہ چترال کے بہترین پرائیوٹ سکول میں پانچویں جماعت کا طالبعلم ہے۔ ان کے بقول؛ اس یتیم خانے میں مجھے ماں باپ تو نہ مل سکے لیکن دنیا میں جینا ضرور آگیا۔ اس کی بدولت میں آج تعلیم حاصل کر رہا ہوں اور اب یہی میرا گھر ہے۔میرے پاس بچے کے کسی سوال کا جواب نہ تھا۔ ایسے کتنے معصوم ہونگے جو حسرتوں سے زخمی ہیں۔ آپ اپنے مال میں ان یتیم بچوں کا ضرور خیال رکھیں اور ان کے سر پرشفقت کا ہاتھ پھیرتے رہیں۔ تعلیمی میدان میں ان کی کفالت کیجئے تاکہ میدان محشر میں نبی اکرم ؐ کی صحبت نصیب ہوسکے۔
محافظ بیت الاطفال کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے آئندہ دنوں میں اس کی تیز رفتار وسعت ترقی کیلئے دعا گو ہیں اور بطور خراج عقیدت بانی محافظ بیت الاطفال مولانا عماد الدین سمیت پوری ٹیم کی کاوشوں کے اعتراف میں بروقت وارد شدہ ایک شعر پر اپنی بات ختم کرتا ہوں۔
درد دل تجھ کو عنایت یوں ہو ا جیسے چراغ رہگذر
کب ہوئی تھی شمع روشن جل رہی ہے آج تک
قلم ایں جا رسید و سر بشکست…..!!