دروش(نمائندہ چترال میل) نا معلوم چوروں نے گذشتہ روز گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول دروش کے لیبارٹری کے تالے توڑ کر دو عدد قیمتی لیپ ٹاپ لے اڑے مگر کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ تفصیلات کے مطابق چند دن پہلے دروش کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول دروش کے لیبارٹری کے تالے توڑکر نا معلوم فرد /افراد نے دو عدد قیمتی لیپ ٹاپ چرا لئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق یہ قیمتی لیپ ٹاپ ایس آر ایس پی کی طرف سے سکول ہذا کو عطیہ کئے گئے تھے۔ اس حوالے سے دروش پولیس کے ایس ایچ او بلبل حسن نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے اس سلسلے میں تفتیش شروع کی ہے اور وہ بذات خود اس کیس کی تحقیقات کررہے ہیں اور انشاء اللہ بہت جلد سب کچھ سامنے آئیگا۔ انہوں نے کہا کہ جس نے بھی یہ کام کیا ہو وہ اس حوالے سے مکمل خبر رکھنے والااور ماہر شخص ہے کیونکہ چوری شدہ لیپ ٹاپ ایک خصوصی چپ کیساتھ منسلک تھے اور بغیر ”ان لاک“ کئے انہیں چپ سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ مذکورہ واقعے میں چوروں نے خفیہ کوڈ کا کامیابی سے استعمال کرتے ہوئے لیپ ٹاپ کو چپ سے الگ کر کے اٹھا لئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق یہ واقعہ کم از کم دو ہفتے قبل پیش ہوا مگر اسے میڈیا کی نظروں سے اوجھل کرنے کی کوشش کی گئی۔
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات