دھڑکنوں کی زبان۔۔”جی پی ایس اجنو ایک مثالی سکول“۔۔محمد جاوید حیات

Print Friendly, PDF & Email

گورنمنٹ پرایمری سکول اجنو میرا مادر علمی ہے۔۔میں نے وہاں سے الیف،با، جیم سیکھنا،پڑھنا شروع کیا وہاں میرے استاد نے میرے ہاتھ میں قلم تھما دیا۔۔اس زمانے میں تین کچے کمرے تھے۔۔بارش میں چھتیں ٹپکتیں۔۔برف پڑتی تو گاؤں کے بزرگ آکے برف ہٹاتے۔کھڑکیاں بے کواڑتھیں ہم سردیوں میں ٹھٹرتے۔۔دو اساتذہ تھے ہم زیادہ تر ایک دوسرے کو پڑھاتے۔۔ہمارے سکولینگ کی حالت ناقابل بیان ہے۔۔آج میرا یہی سکول پانچ کمروں پہ مشتمل ایک پکی بلڈنگ ہے۔۔واش روم ہیں۔۔چار دیواری ہے۔۔بچوں کی تفریح کے لئے سامان ہیں۔۔پانچ اساتذہ ہیں۔۔میرے دوبچے یہاں پہ زیر تعلیم ہیں ایک پانچویں میں اور ایک دوسری جماعت میں ہے۔۔میں جب ان کو گھر میں سکول کے کام کرتے دیکھتا ہوں تو فخر ہوتا ہے کہ گورنمنٹ سکول میں اس معیا رکا کام ہورہا ہے سرکاری سکولوں پہ لوگوں کا اعتماد نہیں۔۔معاشرے میں جھنجٹ ہے۔۔اعتراضات ہیں۔۔اساتذہ پر برستے ہیں کہ کام نہیں کرتے۔۔نجی سکولوں اور سرکاری سکولوں کے درمیان ایک خلیج ہے یہی خلیج ایک محاذ بھی ہے۔۔کوتاہیاں ضرور ہیں۔۔اساتذہ روایتی ہیں۔۔سسٹم کمزور ہے۔۔پرائیمری میں سہولیات کم ہیں۔۔اساتذہ کی مناسب ٹرینگ نہیں ہوتی کورس پر عبور نہیں۔۔جزا سزا کی میکنیزم کمزور ہے۔۔بعض سکولوں میں اساتذہ کم ہیں۔۔تعلیم کے نئے طریقے رائیج نہیں۔۔پھر داخلوں میں معیار کا تصور نہیں۔۔یہ سب کوتاہیاں سر کاری سکولوں میں معیار پر اثر انداز ہوتے ہیں۔۔گورنمنٹ کے اساتذہ اپنا معیار کھونے سے ہراسان تھے۔۔درمند اور مخلص لوگ اپنے آپ کو کوستے۔۔مگر اب اللہ کا شکر ہے کہ آہستہ آہستہ سرکاری سکولوں کے معیار میں بہتری آرہی ہے۔۔گورنمنٹ پرائمیری سکول اُجنو کا معیار قابل رشک ہے۔۔اساتذہ سر توڑ محنت کرتے ہیں۔۔بچوں کا تعلیمی معیار کسی بھی غیر سر کاری سکول سے بہتر ہے۔۔دوسری جماعت کا بچہ اردو اور انگریزی عبارت فرفر پڑھ سکتا ہے۔۔مشکل سے مشکل لفظ لکھ سکتا ہے۔حساب کے سوالات حل کر سکتا ہے۔۔اپنی کلاس میں کھڑے ہو کر بات کر سکتا ہے۔۔وقت پہ سکول جاتا ہے صفائی ستھرائی کا بہت خیال رکھتاہے۔۔ترتیب، تہذیب انداز اخلاق سب ایک متعلم کے۔۔میں جب اس سکول کے احاطے میں داخل ہوا تو انچارج استاذفضل الرحیم کو لان میں کھڑے کلاسوں کی نگرانی کرتے دیکھا۔۔ہر کلاس میں استاذ کام میں مصروف تھا۔محنت کی خوشبو آرہی تھی۔۔نونہالوں کا مستقبل روشن تارہ بن کر ادارے کے اوپر چمک رہا تھا۔۔درو دیوار سے تربیت کی کرنیں پھوٹ رہی تھیں۔۔انچار ج استاذ کو صرف دو باتوں کا شکوہ تھا کہ ایک میرے اساتذہ کو ڈیٹیلمنٹ پر ادھر اودھر بھیجتے ہیں محکمہ ایسا نہ کرے۔۔گاؤں میں جب عمی خوشیاں ہوتی ہیں تو بچے غیر حاضر ہوتے ہیں والدیں ان باتوں کا خیال رکھیں۔۔باقی ان کو نہ اپنی تنخواہ کی فکر تھی نہ مراعات کی پرواہ تھی۔۔نہ ترقیوں کا کوئی خواب تھا۔۔ان کے سینوں میں بچوں کے لئے درد تھا۔۔ان کو اپنے کام سے کام تھا۔۔حیدر صاحب کو اعتراض تھاکہ نصاب میں غلطیاں ہیں۔۔پتہ چلا کہ وہ نصاب دل سے پڑھتا بھی ہے پڑھاتا بھی ہے۔۔منصور اور اسلام صاحب معیار پہ اڑے ہوئے تھے کہ سارے بچے ایک جیسے ہوں۔۔مجھے اس سمے گورنمنٹ سکولوں پہ فخر ہونے لگا۔۔اور ایک آرزو ستانے لگی کہ کاش سب اساتذہ کا خلوص مشترک ہو۔۔سب کی کاوشیں ایک سمت پہ ہوں۔۔فلحال گورنمنٹ پرائمیری سکول اُجنو کا جو سٹاف ہے ایسا گروپ ہر سکول میں ہو۔۔اس کا کریڈٹ صدر معلم فضل الرحیم صاحب کو جاتا ہے مگر اس کی ٹیم کی جو کار کردگی ہے قابل ستائش ہے۔۔محکمے کے زمہ داروں کو ایسے لوگوں کی نشاندھی کرکے حوصلہ افزائی کرنی چاہیئے تاکہ یہ دوسروں کے لئے مثال ہوں۔۔