عالمی یوم ٹائلٹ۔۔ تحریر: محکم الدین ایونی

Print Friendly, PDF & Email

19 نومبرعالمی یوم ٹائلٹ کے نام سے منایا جاتا ہے۔ یہ در اصل لوگوں کو کُھلی فضا میں رفع حاجت کی بجائے ٹائلٹ کے استعمال کی طرف ترغیب دینے کی کوشش ہے۔عام طور پر لوگ ٹائلٹ کا نام سن کر ناگواری کا اظہار کرتے ہیں۔ کیونکہ اس نام کے سنتے ہی ذہن میں ایک غلیظ سی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ لیکن تمام انسانوں کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے۔ کہ کسی کو ٹائلٹ کی ضرورت پڑجائے۔ اور اُسے بروقت یہ سہولت میسر نہ ہو۔ اور اپنی عزت اور پردے کی فکر بھی ہو ۔ تو ایسی صورت میں اُس بندے پر کیا گزرے گی۔ اسلام میں گندگی اور غلاظت سے بچنے کی سختی سے ہدایت کی گئی ہے۔ اور صفائی کو ایمان کا اہم حصہ قرار دیا گیا ہے۔ اس لئے یہاں ہی سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں۔ کہ رفع حاجت کی جگہ جس میں پردے کا مناسب انتظام ہو کس قدر اہمیت کی حامل ہے۔ چترال میں اگرچہ تمام گھروں میں ٹائلٹ کی تعمیر کو اہمیت دی جاتی ہے۔ لیکن اب بھی دور دراز کے علاقوں میں کم وسائل والے غریب لوگ موجود ہیں۔ جن کے پاس یہ سہولت موجود نہیں ہیں۔ سنیٹی ٹیشن کے حوالے سے ایک سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اب بھی دو کروڑ لوگ ٹائلٹ سے محروم ہیں۔ جبکہ دس کروڑ افراد کومحفوظ سینی ٹیشن کی سہولت حاصل نہیں ہے۔ لیکن مجموعی طور پر دیکھا جائے تو چترال کی حالت صوبے اور ملک کے بعض اضلاع کی نسبت کافی بہتر ہے۔ اس کے باوجود چترال کی ایک بڑی آبادی ضرورت کے وقت یہ سہولت حاصل کرنے سے قاصر ہے۔ اور ٹائلٹ نہ ملنے کے سبب برداشت کے نتیجے میں کئی مہلک بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ مشکلات خواتین کو درپیش ہیں۔ چترال میں مسافر خواتین، دفاتر میں خدمات انجام دینے والی خواتین اور مخلوط تعلیم کے حامل سکولوں میں پڑھنے والی بچیوں کو اس سلسلے میں شدید مشکلات درپیش ہیں۔ مخلوط تعلیم کی سکولوں میں حساس بچیاں اپنی تعلیم ہی ادھوری چھوڑ کر چلی جاتی ہیں۔ یا سکول میں داخل ہی نہیں ہو تیں۔ اور تعلیم سے محروم رہتی ہیں۔ جن سکولوں میں ٹائلٹ تعمیر کئے گئے ہیں اُن کی حالت بھی انتہائی ناقص ہے۔جو بیماری پھیلانے کا ذریعہ ہیں۔ اور پورے چترال کے سکولوں کی حالت نا گفتہ بہہ ہے۔ اسی طرح چترال شہر میں مسافروں، کاروباری لوگوں کیلئے درکار ٹائلٹ کی شدید کمی ہے۔ پوری ایک لاکھ کی آبادی کیلئے چار کلومیٹر طویل بازار میں پبلک ٹائلٹ کی جابجا ضرورت ہے۔ لیکن اس حوالے سے متعلقہ ادارے کے پاس فنڈ کی کمی اور زمین فراہم نہ ہونے کے سبب ٹائلٹ تعمیر نہیں کئے جا سکے ہیں۔ اور لوگوں کو انتہائی مشکلات کا سامنا ہے۔ بڑی تعداد میں غیر مقامی کاروباری لوگ جو چترال شہر اور بازار ایریے میں قیام پذیر ہیں، راتوں کو کُھلی فضامیں رفع حاجت کرتے ہیں۔ یوں انتظامیہ، ٹی ایم اے اور دیگر اداروں کی کو ششوں کے باوجود صفائی مہم کامیاب نہیں ہو رہی۔ اور شہر کے کئی مقامات اب بھی غلاظت کے ڈھیر کی صورت اختیار کر گئے ہیں۔ اور مستقل بنیادوں پر یہ مقامات بد بو اور تعفن پھیلانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ٹائلٹ کے حوالے سے ایک افسوسناک المیہ یہ ہے۔ کہ مسافر خواتین کی مجبوریوں کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔ چترال کے مین اڈوں میں جہاں ٹائلٹ موجود ہیں۔ اُس میں بھی خواتین کیلئے مناسب انتظام کا ہونا اشد ضروری ہے۔ اس کے علاوہ دور دراز کے انتظار گاہوں جہاں خواتین کو گھنٹوں گاڑیوں کا انتظار کرنا پڑتا ہے، ٹائلٹ تعمیر کئے جانے چاہیں ۔ اس کیلئے مقامی ویلج کونسل اپنا فنڈ استعما ل کر سکتے ہیں۔ ایسے دفاتر جہاں مردو خواتین کام کرتی ہیں، وہاں خواتین کیلئے علیحدہ ٹائلٹ مخصوص کئے جانے چاہئیں۔ عالمی یوم ٹائلٹ در اصل احساس صفائی کو اُجاگر کرنے اور انسانی فضلات کو سائنسی طریقے سے ٹھکانے لگانے کا درس دینے کے مقصد کے تحت منایا جاتا ہے۔ ہم انسانی حقوق اور علاقا ئی ترقی کے حوالے سے سمینار اور کانفرنس تو منعقد کرتے ہیں لیکن انسانی زندگیوں کو بیماریوں سے نجات دلانے، ماحول کو صاف سُتھرا بنا کر اپنے علاقے کی خوبصورتی میں اضافہ کرنے اور خود کو مہذب شہری ثابت کرنے کیلئے اس قسم کے ضروری امور پر توجہ ہی نہیں دیتے۔بلکہ بُرا محسوس کرتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے، کہ ہم صنفی امتیاز سے پاک معاشرہ تشکیل دینے کیلئے بنیادی ضروری سہولیات کی فراہمی کو سب کیلئے ممکن بنانے کی کوشش کریں۔ اور چترال کو ایک خوبصورت اور صاف سُتھرا شہر بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔