سیاست بہت پاکیزہ جذبے کا نام ہے۔۔سیاست دان قوم کامحسن ہوتا ہے۔وہ خود اتنی قربانیاں دے چکا ہوتا ہے کہ دوسروں کے لئے مثال بن جاتا ہے۔۔اس کے پیشرو اس کی مثالیں دیا کرتے ہیں۔۔اس کے پاس ایک سوز درون ہوتا ہے۔۔وہ فکر مند ہوتا ہے اس کی نگاہیں دور بین ہوتی ہیں وہ زمانے سے لڑتا ہے اس کی ڈکشنری میں مشکل لفظ ہوتا ہی نہیں۔۔اس کے اور دوسروں کے درمیان فاصلہ نہیں ہوتا۔۔وہ محبت سے دلوں کو جیتا ہے قوم کی روحیں اس کے ساتھ چلتی ہیں۔۔ہر مشکل وقت میں وہ آگے ہوتا ہے۔۔ہر قربانی کے لئے اس کا نمبر پہلا ہوتا ہے۔۔تب اس پہ ایک ایسا مرحلہ آتا ہے کہ اس کے تعارف کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔۔اس کے بارے میں کچھ بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔۔وہ ہر ضرورت کو محسوس کرتا ہے اس لئے اس کو بھی کچھ بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہمارے ہاں سیاست بہت نا پختہ ہے۔۔نہ کارکن ان خصوصیات کو اپنے لیڈر میں تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور نہ لیڈراپنی ذات میں ان صلاحیتوں کو جنم دینے کی فکر کر رہا ہے اس وجہ سے سیاست سستی ہے پر امن نہیں ہیجان انگیز ہے جس کو دیکھو فضول دوڑ رہا ہے۔۔کریڈٹ لینے کی کوشش ہوتی ہے۔۔خد مت کا پرچار کیا جاتا ہے۔۔لیکن لیکن۔۔۔وہ سب لوگ جو اس ہیجان میں مبتلا ہیں ان کو قوم کی توقعات پر پورا اُترنے میں مشکل پیش آتی ہے۔۔بد قسمتی سے معاشرے میں بے چینیاں ہیں۔۔بنیادی ضروریات،بنیادی سہولیات کم ہوتی جارہی ہیں۔۔انفراسٹرکچر پر تعمیری سوچ نہیں ہوتی۔۔خاکم بدہن تعمیری کاموں میں معیار کم ہے۔۔ایک سال کا کام سالوں میں ہوتا ہے۔۔ملک کے وزیر اعظم پرالزام ثابت ہوا اب وہ وزیر اعظم نہیں۔۔بس اتنی سی بات ہے۔۔ہم دنیا کو بتا رہے ہیں کہ ہم زمہ دار قوم ہیں۔۔ہم معمولی خیانت بھی نہیں کرتے۔۔۔مگر اتنی سی بات پر ہماری سیاسی ناپختگی کو دیکھو ایک غول مچا ہوا ہے۔۔کوئی عدالت کو الزام دے رہا ہے کوئی وزیر اعظم کو ئی سسٹم کو۔۔۔انا لللہ اصل میں ہم سب بچے ہیں ناپختہ کار ناپختہ ذہن۔۔۔غیرت قوم کا زیور ہوتا ہے۔۔سنجیدگی قوم کی پہچان ہوتی ہے۔۔سلام ہو وزیر اعظم پر جس نے عدالت کا حکم قبول کیا۔۔ سلام ہو عدالت پر جس نے انصا ف کیا۔۔۔اب ناپختہ مزاجی دیکھو سوشل میڈیا پر گالم گلوچ ہیں۔۔شہنائیاں ہیں۔۔مسکراہٹیں ہیں۔۔۔آنسو ہیں۔۔میٹھائیاں تقسیم ہورہی ہیں۔۔۔گویا کہ یہ جمہوریت نہیں ایک غاصب امارت تھی جس سے جان چھوٹی۔۔۔اگر ہم میں خود احتسابی ہوتی تو ہم اس بندے کو بھی کریڈٹ دیتے خود بھی لیتے۔۔یہ ملک ہمارا ہے۔۔یہ مٹی ہماری ہے۔۔اس کی پائی پائی کی حفاظت ہمارا فرض ہے۔۔اگر ہم یہاں پر خیانت کرتے ہیں تو ہم کسی قابل نہیں ہیں۔۔اس سر زمین نے دیکھا ہے کہ لوگوں نے اس کے لئے اپنی ذاتی دولت قربان کی ہے۔۔اپنی جائیدایں اس پہ قربان کی ہیں۔۔اپنے محلات پہ اس کے دفتر لگائے ہیں۔۔اس قوم نے کیا نہیں دیکھا لیکن آج اس کے مفادات کو اسی کے زمہ داروں کے ہاتھوں خطرات ہیں۔۔دنیا میں قومیں صرف قربانیوں اور وہ بھی بڑوں کی قر بانیوں سے آگے بڑھتی ہیں۔۔امریکن ”عظیم ا مریکہ“ کا نعرہ لگا رہے ہیں۔۔چائینا”عظیم چینا“ کا نعرہ لگا رہا ہے۔۔وہ عملی طور پر ان کو عظیم بنانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔۔لیکن ہم میں وہ جرات اور صلاحیت نہیں ہے۔۔۔ہمارے ہاں جمہوریت پختہ نہیں ہوئی۔۔ابھی مراحل طے کرنے ہیں۔۔ابھی پختگی آنی ہے۔۔ہمیں قومی اور اجتماعی مفاد کا سبق پڑھنا ہے۔۔ہمیں صداقت اور امانت کا پہاڑہ یاد کرنا ہے۔۔ہمیں احتساب کو اپنے اوپر لازم کرنا ہے۔۔ہمیں دوسروں کی اچھائیاں اور اپنی کمزوریاں نظر آنی ہیں۔۔ہمیں اپنے اداروں کو مضبوط کرنا ہے۔۔ہمیں قوم کی تعمیر میں اپنا بھر پور حصہ ڈالنا ہے۔۔تب ہم مطمین ہونگے۔۔سیاست عبادت ہے خدمت ہے۔۔بے لوث خدمت۔۔ریا اور لالچ سے پاک خدمت۔۔۔
ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد ہر کہ خود را دید او محروم شد
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات