قادر خان صاحب کی تحریر مختار نامہ عام پڑھ کر جی خوش ہوا وطن عزیز پاکستان کی گلی سڑھی اور گندی سیاست کا پردہ اشعاروں کی مدد سے چاک کر دیا ہے ایسی علامتی تحریر اخبارات کے اندر کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے کالم میں جامعیت بھی ہے اور اختصار بھی قانون کی زبان میں ایک مختار نامہ،خاص بھی ہوتا ہے جو مخصوص حالات میں مخصوص مقصد کیلئے ہوتا ہے پاکستان نے وزیر اعظم لیا قت علی خان کو مختار نامہ خاص دیا تھا جنر ل ضیا ء الحق نے بندوق کی نوک پر وہ مختار نامہ خاص اپنے نام کروالیا اس کے بعد مختار نامہ عام کے چنداں ضرورت نہیں رہی بقول میر ؎
ہم مجبوروں پر ناحق تہمت ہے مختاری کی
جو چاہیے سو آپ کر ے ہے ہم کو عبث بدنام کیا
ہمارے اباو اجداد نے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو جو مختار خاص دیا تھا وہ بہت جامع تھا اگر تحریر ی صورت میں ہوتا تو شاید یوں ہوتا کہ پاکستان قوم بقائمی ہو ش و حواس،اس مختار نامہ خاص کی رو سے اپنے وزیر اعظم کو اختیار دیتا ہے کہ وہ 7000 کلومیٹر دور جاکر امریکہ کے ساتھ پاکستان کے مفادات کا سودا کر لے ہماری طرف سے امریکہ کو گارنٹی دے کہ ہم کسی پڑوسی ملک کے ساتھ دوستی نہیں کرینگے اگر کسی پڑوسی ملک کے ساتھ خیر سگالی جذبے کا اظہار کر تے ہوئے پکڑے گئے تو امریکہ کو اختیار ہوگا کہ ہمارے لئے جو بھی سزا تجویز کرے ہمیں اس طرح سزا دیدے وزیر اعظم کو یہ بھی اختیار ہے کہ امریکہ کو ہماری طرف سے 5 کاموں کے نہ کر نے کی ضمانت دے پہلا کا م یہ ہے کہ ہم کسی شعبے میں خود کفالت کی کوشش نہیں کرینگے امریکہ جو کچھ ہمیں دے کا اُس پر صبر اور شکر کے ساتھ قناعت کرینگے دوسرا کا م یہ ہے کہ ہم کبھی،کسی بھی صورت میں غریبوں کو ہمارے ووٹ کا صحیح حقدار ہمیشہ جا گیر دار،سرمایہ دار،پتھاری دار اور مخدوم،پیر،مولوی ٹائپ کا بندہ ہوگا تو امریکہ کا ت ابعدار اور فرمان بردار بن کر وقت گزارے گا،ضرورت پڑنے پر امریکہ کو کرایے کی فوج اور کرایے کے سپاہی فراہم کر کے اپنا اور اپنی قوم کا منہ کالا کر ے گا تیسرا کام یہ ہوگا کہ ہم کبھی،کسی بھی حالت میں خود کو آزاد،خود مختار اور غیرت مند قوم کی حیثیت نہیں دینگے قومی غیرت،ملّی صمیت،ننگ و ناموس اور عزت نفس کو امریکہ کے پاس رہن رکھ کر دو وقت کی روٹی کمائنگے اور وقت گزارینگے چوتھا کام یہ ہے کہ ہم خود کو پرامن قوم کہنے کی کبھی کوشش نہیں کرینگے بیٹر کی طرح امریکہ کی مٹھی میں ہونگے امریکہ کو بٹیر لڑانے کا شوق ہوگا تو وہ اپنے شوق کی خاطر ہمیں بٹیر سے لڑائے،کتے سے لڑائے یا بیل اور مرغے سے لڑائے ہم امریکہ کو قومی سلامتی کیلئے لڑینگے اور جان دیدینگے پھر کہتے ؎
جان دی،دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادانہ ہوا
پانچواں کا م یہ ہے کہ ہم کسی بھی حال میں قرض سے جان نہیں چھڑائینگے قر ض کے دلدل میں ہمیشہ پھنسے رہنگے تاکہ امریکہ کا چولہا چلے اور سود در سود کی حساب سے وہ ہماری آنے والی نسلوں کی ہڈیاں نوچنے کا شوق پورا کرتا رہے 1994 میں اس مختار نامہ خاص کی رو سے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے واشنگٹن جاکر ہماری قومی غیرت،صمیت اور عزت کا سودا کیا تھا یہ سودا مسلسل ہمارے گلے پڑگیا ہے ذولفقار علی بھٹو کا نا م کے ایک سیاستدان نے اس مختار نام خاص سے جان چھڑا نے کی کوشش کی تو اُس کی عبرت ناک سز ا دی گئی پھر اس بات کی ضرورت محسو س کی گئی کہ نئے لیڈر کو نیا مختار نامہ خا ص دیکر وشنگٹن بھیجا جائے ہم تذبذب اور مخمصے میں تھے کہ جنرل ضیاء الحق نے مر د مومن مرد حق کی ٹوپی پہن کر بندوق کی نوک پر دوسرا مختار نامہ خاص الخاص حاصل کر لیا یہ مختار نامہ خاص پہلے والے سے بھی زیادہ جان لیوا ثابت ہوا جنرل ضیاء الحق نے جو مختار نامہ خاص لیا وہ اس معنی میں خاص الخاص تھا کہ اس کی مثال زہر کی گولی جیسی تھی اس زہر نے پاکستانی قوم کو مفلوج کر دیا اور ہاتھ پاوں باندھ کر امریکہ کے سامنے ڈال دیا اگر یہ مختار نامہ خاص تحریری صورت میں مل گیا تو کی عبارت پہلے مختار نامے سے بھی زیادہ شرم ناک ہوگی مثلاًیہ کہ اس مختار نامہ خاص کی رو سے ہم جنرل ضیاء الحق کو اختیار دیتے ہیں کہ وہ ہماری چھاونیاں،ہماری مسجد یں ہمارے دینی مدرسے امریکہ کے حوالے کر کے اس کے بدلے میں ڈالر کی دولت حاصل کر ے اس مختار نامہ خاص کی رو سے ہم جنرل ضیاء الحق کو اختیار دیتے ہیں کہ وہ امریکہ کو کرا چی،جھنگ،ہنگو،پاڑہ چنار اور گلگت میں فسادات برپا کروانے کیلئے افرادی قوت مہیا کر کے مزدوری حاصل کر لے،اس مختار نامہ خاص کی رو سے ہم جنرل ضیاء الحق کو اختیار دیتے ہیں کہ وہ امریکہ کے ساتھ پاکستان میں پرانے حکومت گرانے اور نئی حکومت لانے کا معاہدہ کر کے پاکستان قوم پر کٹھہ پتلی حکمران مسلط کر نے کا پورا اختیار امریکہ کو دیدے چنا نچہ 1985 ء سے اب تک ہم دیکھ رہے ہیں کہ ”پُتلی تماشا“چل رہا ہے قادر خان صاحب نے اپنی تحریر میں جن سیاسی حماقتوں کا ذکر کیا ہے وہ کسی مختار نامہ عام سے زیادہ اس مختار نامہ خاص کی مرہون منت ہے پاکستانی قوم کی حیثیت ”مر دہ بد ست زندہ“سے زیادہ کچھ نہیں میر ؔنے کہا ؎
یاں کے سیبید وسیہ میں ہم کو جو دخل ہے سو اتنا ہے
رات کو رو رو صیح کیا یا دن کو جوں توں شام گیا
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات