عبد المجید سالار۔۔جمعیت علماء اسلام چترال
شاہی مسجد چترال میں جھوٹی نبوت کا دعوی کر نے والے شخص کے خلاف احتجاج کر نے پر جن لوگوں کے خلاف ایف ائی ار درج ہوا، پھر ان کو دہشت گردی عدالت سوات میں پیش کر نے کے بعد ڈی ائی خاں جیل منتقل کرتے وقت ڈی ائی خان میں گاڑی حادثے کا شکار ہواجس کی وجہ سے قیدیوں کو چوٹیں آئی ساتھ ساتھ ان قیدیوں کو غیر قانونی طور پر حوالات میں رکھکر جو مظالم پولیس کی طرف سے ڈھائے گئے اس پر چترال کے عوام میں انتہائی غم غصہ پایا جا رہا تھا، قیدیوں کے ساتھ عوام کی ہمدردیاں تھیں، مذہبی جماعتوں کے قائدین دن رات ان قیدیوں کی رہائی میں مصروف نظر آرہے تھے، اس دوران چترال انتظامیہ کی طرف سے چترال میں پولو ٹورنمنٹ کرانے کی کو شیش کی گئی تو چترال کے دونوں مذہبی جماعتوں کے قائدین جان ہتھیلی پے رکھکر پو لو ٹورنامنٹ یہ کہکر ملتوی کر دیا کہ چترال کے گھروں میں غم کی کفییت ہے،اس دوران جشن مناناقیدیوں کے رشتہ داروں کے زخموں پر نمک پاشی ہو گی،دونوں مذہبی جماعتوں کے قائدین نے بازار مسجد میں چترال کے عوام کو جمع کر کے ان قیدیوں پر ہونے والے مظالم پر صدائے احتجاج بلند کر تے ہوئے ان کی رہائی کا مطالبہ کرتے رہے۔ ان قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے دونوں مذہبی جماعتوں نے ڈپٹی کمشنر چترال،ڈی پی او چترال،ایس پی انوسٹیگیشن، تفتشی آفیسر، سے کئی بار ملاقاتیں کی اور قیدیوں کے رہائی کے حوالے سے دفعات ختم کر نے میں اپنا کردار ادا کیا،قیدیوں کی رہائی کے بعد دونوں مذہبی جماعتوں کے قائدین نے ایک پر ہجوم پریس کانفرنس کے ذریعے وزیراعلی خیبر پختونخواہ اور چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ سے اس واقعے میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف جوڈیشنل انکوائیری کا مطالبہ کیا، ضلع کونسل چترال سے پولیس کی طرف سے کئے گئے مظالم کے خلاف جو ڈیشل انکوایری کا متفقہ قرارداد بھی پاس ہو کر سامنے آیا۔ تب ایک سازش کے تحت اسیران کے ذریعے پریس کانفرنس کرایا گیا جس کی وجہ سے عوام کی جو ہمدردیاں اسیران کے ساتھ تھی، اس پر پانی پھر دیا گیا، اس پریس کانفرنس میں اسیران کی کتنی رضامندی شامل تھی یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ مگر وقتی طور پر پولیس کو فائدہ پہنچانے کی کوشیش کی گئی پھر اس پریس کانفرنس میں پولیس کو فائدہ پہنچانے میں جن جن شخصیات کے تصاویر نظر آرہے ہیں،ان سے بھی چترال کے عوام بخوبی آگاہ ہیں، لگتا ایسا ہے، کہ ان اسیران کے ہاتھوں پے تیار کردہ پریس کانفرنس تھماکر ان کو پریس کانفرنس پے مجبور کیا گیا ہے، اور مذہبی جماعتوں کے قائدین کے کئے کرائے پر پانی پھرانے کے ساتھ ساتھ ان کو بدنام کرنے کی کوشیش کی گئی ہے، مگر ان سب کا جواب عوام وقت آنے پر دینگے، ہم سب نے اس وقت کا انتظار کرنا ہے، تاہم اس پریس کانفرنس کرانے میں چترال کے سیاسی شخصیات کا کتنا ہاتھ ہے وقت آنے پر سامنے آجائیگا۔
میں آپنے اس مضموں میں اسیران سے یہ گلہ ضرور کرونگا جن شخصیات کو انہوں نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے، اس طرح نہیں کرنا چاہیے تھا کیونکہ ان میں ایک نام مولانا عبدالشکورکا بھی ہے، جس کو ہم نے گاڑی حادثے کے دن ڈیرہ اسماعیل خان میں JUIڈیرہ، ختم نبوت ڈیرہ اور JUI کے مرکزی رہنما مولانا عطاء الرحمن کو ہسپتال میں زخمیوں کی طرف متوجہ کرتے دیکھا اورمولانا عبدالشکور نے 25گھنٹہ مسلسل ڈیرہ ہسپتال میں ان زخمیوں کی خدمت کی۔ پھر سوات کے دہشت گردی عدالت میں وکلاء کو لیکر قیدیوں کے حوالے سے حاضر ہوئے، چترال آکر قیدیوں کی رہائی تک بھی ان کو سکون کرتے ہوئے ہم نے نہیں دیکھا قیدیوں کے ساتھ جیل میں ملاقات، ان کے ساتھ ہمدردی، اور ان کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے مولانا ہمیں نظر آئے۔مگر آج ان پر یہ الزام لگاکر پریس کے ذریعے یہ پیغام دیناکہ عبدالشکور ہمارے نام لیکر سیاست کر نا بند کر دے کم از کم مولانا کے حوالے سے یہ بات نہیں کر نی چاہیے تھی۔ بقول اسیران کے اگر ان کے باتوں میں سچائی بھی ہے، تو کیا جن کے نام اسیران لے رہے ہیں یا جو اس پریس کانفرنس میں بیٹھے ہیں کیا وہ شخصیات کسی خانقاہ سے تعلق رکھتے ہیں یقینا ایسا نہیں بلکہ ان شخصیات نے اسیران کے کندھوں پے بندوق رکھکر بہت کچھہ شکار کھیلنے کی کوشش کی ہے بہت ساروں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ آفسوس صد آفسوس