قومی ترقی میں تعلیم کا کردار۔۔۔۔۔ شیر جہان ساحلؔ
مشہور فلسفی،ماہر نفسیات اور تعلیمی مصلح Reformer) ( جان ڈیوی امریکہ کے شہر برلنگٹن میں پیدا ہوئے۔گو کہ جان ڈیوی بیسویں صدی کے ایک عظیم تعلیمی ریفارمر اور ماہر تعلیم کے طور پر جانے جاتے ہیں مگر وہ اخلاقیات، منظق، معاشرتی نظریات، آرٹس، جمالیات اور مابعدالطبیعیات پر بہت سارے کتابین لکھ کر پچھلی صدی کے ٹاپ اسکالرز میں شمار ہوتے ہیں۔ چونکہ جان ڈیوی جمہوریت پسندتھے اوراس کے لئے وہ تعلیم، سیاست، صحافت اور موصلات کو اہم سمجھتے تھے۔وہ جمہوریت کے لئے دہ چیزوں یعنی سکول اور سول سوسائیٹی کو بنیادی تصور کرتے ہیں۔ جان ڈیوی تعلیمی اصلاحات اورانسانی ترقی (Human Development) پر بہت زیادہ ریسرچ کئے اور جدید تعلیمی نظام میں بہت سارے ریفامز لائے۔ وہ ترقی کو ایک کثیرالجہتی (Multidimensional) عمل قرار دیتے ہیں۔ جان ڈیوی نے امریکہ کو یہ مشورہ دیا کہ اگر امریکہ حقیقی ترقی چاہتا ہے تو اسے ترقی کے تمام پہلوؤن پر غور کرنا ہوگا۔ جن میں سماجی، اخلاقی، جسمانی، ذہنی پہلو وغیرہ شامل ہیں۔ ان تما م پہلوؤن پر عمل کئے بے غیرمحض تعلیم کے ذرئعے ترقی کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔
جی ہاں! یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی معاشرے میں ترقی کے لئے مندرجہ بالا اصولون پر عمل پیرا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ اور ان تمام پہلوؤن پر عمل کئے بے غیر صرف تعلیم پر زور دیں گے تو اس معاشرے کا حال نہایت ہی ابتر اور ایسے معاشرے میں اصلاحات لانا نہایت ہی مشکل ہوجاتا ہے۔
اکشر لوگوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ ترقی کے لئے تعلیم یافتہ ہونا انتہائی ضروری ہے او ر وہ معاشرتی مسائل کا ذمہ دار ناخواندگی یعنی جہالت کو گردانتے ہیں۔ اور معاشرے میں اگر کوئی مسلہ درپیش ہو تو اکثر اس کے تدرک کے لئے تعلیم کو عام کرنے یا لوگوں کو تعلیم یافتہ کرنے کی ترجیحات پر زور دیتے ہیں۔ مگر حقیقت اس کے برعکس ہیں۔ آپ ہمارے ملک کا ہی مثال لیجئے۔ فرض کریں بلکہ یہ حقیقت بھی ہے کہ کرپشن ہمارا سب سے بڑا مسلہ ہے۔ اور تما م تر معاشرتی برائیاں کرپشن سے جنم لیتی ہیں۔ اور اگر ہم کرپشن کو قومی مسلہ قرار دیکر اس کی تدرک کے لئے اقدامات شروع کریں تو ہمیں سب سے پہلے یہ جاننا ہوگا کہ کرپشن کون اور کیون کررہا ہے اور جہالت یا ناخواندگی اس میں کتنا قصور وار ہے تو ہمیں نفی میں جواب ملے گا کیونکہ آج تک جتنے بھی کرپشن کے واقعات سامنے آئے ہیں ان میں اعلی تعلیم یافتہ افراد ہی ملوث پائے گئے ہیں۔ کیونکہ کرپشن میں وہ لوگ ملوث ہوتے ہیں جو اعلی عہدون پر فائز ہوتے ہیں اور اعلی عہدون پر فائز ہونے کے لئے اعلی تعلیم کا ہونا بھی انتہائی ضروری ہے۔اور اگراس کے باوجود بھی جہالت ہی ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا مسلہ ہے تو کرپشن کو جائز قرار دیکر اپنے مسائل کا حل جہالت میں ہی ڈھونڈنا ہوگا۔ اور اسطرح معاشرے کے تمام افراد ڈگری یافتہ ضرور ہونگے مگر اخلاقی، سماجی، جذباتی، ذہنی نشونما سے محروم رہ جائیں گے جسکا ہم سامنا کررہے ہیں۔
کسی بھی ترقی یافتہ معاشرے کا اگر جائزہ لیاجائے تو وہاں کے لوگ اخلاقی، سماجی، جذباتی اور ذہنی طور پر انتہائی اعلی مقام پر فائز ہونگے۔ کیونکہ جو قوم اخلاقی پستی کا شکار ہوتا ہے تو زوال اس کا مقدر بن جاتا ہے اور تکبر سے پہچانا جاتا ہے۔ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ ” دنیا کے ہر میدان میں ہا ر جیت ہوتا ہے مگر تکبرمیں کبھی جیت اور اخلاق بھی کبھی ہار نہیں ہوتا”
چونکہ ہمارا معاشرہ مسائل کا اماجگاہ بنا ہوا ہے اور تعلیمی اداروں سے ڈگریون کا ترسل زوروشور سے جاری ہے نوجوانون میں کردار نام کی کوئی چیز موجود نہیں۔ مقاصد کے حصول کے لئے انسانیت کی تذلیل معمول بن چکی ہے۔ معاشرے میں جرایم پیشہ افراد کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے قانون کی دھچیان قانون بنانے والے ہی اڑاتے ہیں۔ تمام معاشرتی ادراے تقریباً ناکارہ ہوچکے ہیں۔ ذہنی پسماندگی کا یہ حال ہے کہ مثبت سوچ کی جگہ انتہاپسندگی عام ہوری ہے۔ معاشرے کے فضول رسم و رواج پر اب عمل جاری ہے۔ مگر سرکار کو ان مسائل کا کوئی خبر ہی نہیں ہے۔ کیونکہ انہیں اب تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ پیشہ واریت کس طرح عام کیا جاتا ہے اور گڈگورننس کے کیا اصول ہیں ان اگر کوئی فکر ہے تو صرف پانچ سالہ مدت پوری کرنے کا اور اگلے پانچ سالہ دور کے لئے ووٹ چھین لینے کے نئے طریقہ کار کا۔ اور سرکاری مشنری کی خستہ حالی اور ذہنی پسماندگی جاننے کے لئے یہ بات ہی کافی ہے کہ گلی نالون میں جاری ترقیاتی کامون کا افتیتاح اور جائزہ لینے کیلئے ملک کے وزیر اعظم کو آنا پڑتا ہے اور لاقانونیت کا یہ حال ہے کہ اگر کسی ٹاؤن میں پولیس غفلت کا مرتکب ہو تو وزیر اعظم یا پھر وزیر اعلی کو نوٹس لینا پڑتا ہے مگر ہم اکثر یہ شکوہ کررہے ہوتے ہیں کہ ملک میں موجود مسائل کا حل صرف اور صرف تعلیم ہے۔
اخلاقی، سماجی اور ذہنی پستی کا اندازہ لگانے کیلئے صرف اتنا جاننا کافی ہے کہ جس ملک کی مسجد میں بیٹھے نمازیون کو اپنی آخرت سے زیادہ باہر پڑے اپنے جوتون کی فکر ہو اور فی سبیل اللہ پانی کی ٹینک کے ساتھ رکھی گلاس کو زنجیر سے باندھنا پڑے وہاں صرف ڈگری یافتہ ہونے سے کچھ بھی تبدیل نہیں ہوسکتی۔ اور ہمیں اپنے تعلیمی اداروں میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اور اس کیلئے ہمارے نوجوانون کو جو کہ اخلاقی طور پر انتہائی کرپٹ ہیں، اپنے اندار بھر پور اصلاحات لانے ہونگے اور معاشرے کے ہر فرد کو اپنے آپ کو جانچنا ہوگا اور رول ماڈل کے طور پر اپنے آپ کو پیش کرنا ہوگا۔ کیونکہ تعلیم اور اچھی تربیت سے ہی ایک اچھے معاشرے کی تشکیل ممکن ہوتی ہے۔ اور اس کے لئے تعلیم کے ساتھ ساتھ ترقی کے تمام پہلوؤن پر عمل کرنا ہوگا۔ اور معاشرے میں موجود ایسے تعلیمی اداراے جو صرف نوجوانون کو ڈگری یافتہ بناتے ہیں، اصلاح کرناہوگا۔ اور ہر فرد کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
اللہ تعالی ہم سب کو بد عنوانی کے اس لعنت سے دور رہنے کی توفیق عطا فرمائیے۔ امین۔۔۔