ہماکے پر تو نہ کا ٹو
کبھی غیرت بنی بنیاد کبھی پردے کی شریعت پر
بنی ہوں کیوں تماشا میں اپنی چھوٹی خطاؤں سے
کبھی چہرہ جلایا ہے کبھی زندہ کیا در گور
بنائے پھر فسانے بڑے دلچسپ اداؤں سے
یہ سب ماضی کی با تیں تھیں اب میر ا حال تو جا نو
نہ ہی اب خو ف آتا ہے مجھے ان سب سزاؤں سے
نہ ہی کمزور ہوں میں اب نہ ہی مایوس ہے یہ دل
کہ اب سب کچھ جھلکتا ہے عقابی نگا ہوں سے
اتری رحمت تیرے گھر پر میں جب ہوئی پیدا
سجا تب سے تیرا انگن بڑے خوش رنگ بہاروں سے
کہیں ممتا کی صورت ہوں کہیں بیٹی کی صورت ہوں
تجھے جنت بھی ملتی ہے میری ہی چند دعا ؤں سے
ہما ؔ کے پر تو نہ کا ٹو اسے پر واز کر نا ہے
بہت کچھ سیکھنا ہے اب اسے انہی فضا ؤں سے