ہمارے پیارے دوست اور تین زبانوں میں بیک وقت شاعری کرنے والے تخلیق کار عبد الوکیل سوز کٹھا نہ کی وفات کے بعد ان کی کتاب شائع ہو گئی انہوں نے اپنے حلقہ احباب میں شامل شخصیات کے سوانحی تذ کروں کے مجمو عے کا نا م آئینہ روز گار اپنی زند گی میں رکھا اور اشاعت کے لئے پریس کے حوالے کیا تھا کتاب منظر عام پر آنے سے پہلے مصنف نے آنکھیں مو ند لیں ان کا تخلص سوز تھا مگر اجل نے آگ کی جگہ پا نی میں ان کو جا لیا وہ جو کہتے ہیں آگ اور پا نی ایک دوسرے کی ضد ہیں یہاں پا نی آگ پر غا لب آگیا تو سوز کی پُر جو ش جوا نی پر بھی اُسے تر س نہیں آیا عبد الوکیل سوز کٹھا نہ کی حا دثا تی مو ت کا سب کو دکھ ہوا مگر ان کی کتاب نے ہمارا دکھ درد اور غم بانٹنے میں مد دد ی ہے ان کے معصوم بچوں کی طرح آئینہ رزگار بھی زندہ یا د گار ہے
کتاب میں 40منتخب شخصیات کے سوانحی خا کے اور تذ کرے شائع ہو ئے ہیں ان میں کار وبار ی افراد بھی ہیں، علما ء بھی ہیں سیا سی اور سما جی رہنما بھی ہیں اہل قالم اور شعرا ء بھی ہیں نو جوان ادیب اور شاعر خا لد فراق عند لیب نے عبد الوکیل سوز کٹھا نہ کا تعارفی خا کہ لکھا ہے پر و فیسر ڈاکٹر اسحا ق دردگ نے مصنف کی پہلی کا وش کو ادب کا سنگ میل قرار دیتے ہوئے دلچسپ شذرہ تحری کیا ہے اگر چہ کتاب ہلکی پھلکی تحریر وں پر مشتمل ہے تا ہم اس میں نو جوان مصنف کے قلم کی بے شمار خو بیاں نظر آتی ہیں سب سے اہم خو بی زبان کی سلا ست اور روانی ہے اس کے ساتھ اظہار وا بلاغ کو ابہا م سے پا ک رکھا گیا ہے عمو ماًنو جوا ن اہل قلم جب فصا حت کے دریا میں غو طہ لگا تے ہیں تو بلا غت کا دامن اُن کے ہا تھ سے چھوٹ جا تا ہے اور بے معنی جملوں کی دیواریں کھڑی ہو جا تی ہیں عبد الوکیل سوز اگر ابتدا میں مختصر تمہید باند ھتا ہے تو اُس کو بوجھل ہونے نہیں دیتا مثلاً سید ا جان کٹھا نہ کا سوانحی خا کہ یوں شروع کر تا ہے ”انسان کی اصل پہچان اس کی شخصیت، کر دار اور اس کے چھوڑے ہوئے نقو ش سے ہو تی ہے
کچھ ہستیاں اپنے اخلا ق، عزم، دیا نت اور ساد گی سے لو گوں کے دلوں میں ایسی جگہ بنا جا تی ہیں کہ ان کا وجود مٹی تلے سو جا تا ہے مگر ان کی یا د یں نسل درنسل زند ہ رہتی ہیں ان ہی روشن کر داروں میں ا یک نا م سید ا جان کٹھا نہ کا ہے“ بعض شخصیات کا تذ کرہ کسی روا یتی تمہید کے بغیر بے تکلف اسلو ب میں کر تے ہیں جیسے انہوں نے مولانا محمو د الحسن کٹھا نہ کا ذکر براہ راست ان کی تاریخ پیدا ئش اور سال سے کیا ہے ”یکم جنو ری 1989ء بروز جمعہ گو جر قوم کی ایک مغزز اور دینی روا یت رکھنے والی شخصیت یار ی ملک کے گھر بیلہ پائین شیشی کو ہ چترال میں مولانا محمو د الحسن کٹھا نہ نے آنکھ کھو لی“ ادبی اور علمی شخصیت پر لکھتے ہوئے نفسیات، فلسفہ اور تنقیدی نظر یات کی چا شنی ملا تے ہیں صفی اللہ آصفی کا تذ کرہ لکھتے ہوئے ان کا سرا پا یوں بیاں کر تے ہیں ”آصفی صاحب ایک ظریف طبع، خو ش اخلا ق، خو ش گفتار، اور مجلسی شخصیت کے حا مل ہیں،
ان کے اندر ایک متوا زن انسان، محقق، استاد اور شاعر مو جو د ہے ان کی نثر اور شاعری میں جہاں علمیت اور اد بیت کی آمیز ش ہو تی ہے وہیں زبان کی چا شنی اور ساد گی بھی جھلکتی ہے“ کسی شاعر اور ادیب کے ادب پا روں کا جا ئزہ لیتے ہوئے انداز بیان، اسلو ب اور مخصوص طرز کا حوالہ جا مع اور پر کشش الفاظ میں دیتے ہیں جیسا کہ نو جوان شا عر خا لد فراق عند لیب کی سوانخ عمر ی میں لکھتے ہیں ”ان کا انداز بیاں، الفاظ کا انتخا ب، ترا کیب کا استعمال اور محا وروں کی بر جستگی انہیں اپنے ہم عصر شعراء سے ممتاز بنا تی ہے ان کی شاعری میں روما نوی اور کلا سیکی رجحا نات کی جھلک دکھائی دیتی ہے جبکہ عصری شعور سما جی آگا ہی اور حب الوطنی جیسے مو ضو عات بھی ان کی تحلیقات میں نما یاں ہیں“ مصنف جب اپنے کسی استاد کا ذکر کر تے ہیں تو قاری کو انگلی سے پکڑ کر اس کی کلا س میں لے جا تے ہیں
جیسے پرو فیسر ضیا ء الحق کی سوانح عمری میں لکھا ہے ”سر ضیا ء الحق کا انداز تدریس بے حد دلنشین،محققانہ اور مشفقانہ ہے ان کی کلا س میں شر کت کسی روحا نی اور علمی محفل سے کم نہیں ہو تی ان کے لیکچرز کی کشش اتنی گہری ہو تی ہے کہ سائنسی مضا مین کے طلبہ بھی اپنی کلاس چھوڑ کر ان کے لیکچرز سننے آجا یا کر تے ہیں“ 142صفحا ت کی کتاب معیاری کا عذ پر خو بصورت جلد بندی کیساتھ ایکسپرٹ گرافکس پشاور سے چھپی ہے کتاب کی خو بیاں بیان کر نے کے لئے پوری داستان چاہئیے یہاں کا لم کا دامن تنگ ہوتا جا رہا ہے
مصنف نے جن شخصیات کا انتخا ب کیا ہے ان میں الحا ج رضا خان، الحاج عید الحسین، ملک محمد رضا خان کٹھا نہ، حکیم خان کٹھا نہ، نا ظم شیر محمد کسانہ، الحاج انذر گل (انئحر گل) مولانا محمود الحسن، خطیب خلیق الزمان کا کا خیل، پرو فیسر ڈاکٹر اسحا ق وردگ، ڈاکٹر فصیح الدین اشرف، الحا ج عمر خلیل جنگو خیل، قاری عبد الرحمن جما لی، خا لد فراق عندلیب، حا فظ نواز مد نی، انجینئیر ساجد، مفتی حنیف اللہ، مسرت بیگ مسرت، نوید کوہکن، شاہد الرحمن کشمیری، اکبر علی عا طف، ڈاکٹر محمد سہیل، محمد صفی اللہ آصفی، پرو فیسر محمد ضیا الحق، پرو فیسر شفیق احمد، امتیاز الدین، وسیع الدین آکاش، پرو فیسر امیر عبد اللہ وزیر، شہزادہ احتشام الملک، علی احمد خان بزمی، اکرم کٹھا نہ، سید ا جان کٹھا نہ، وجیہہ الدین، رحیم اللہ سا لا ر زی، قاری عبد الرحمن طاہری، وحید اللہ، ڈاکٹر عطا ء اللہ جان، افتخار خان ساحل، صو بیدار محمد گل، حا جی سلطان محمد اور عبد الحق شا مل ہیں عبد الوکیل سوز کٹھا نہ اردو کے لیکچرر تھے 32سال کی عمر میں وفات پائی مگر مختصر زند گی کے انمٹ نقوش چھوڑ گئے آئینہ روز گار فیض کتاب نیو بازار چترال میں دستیاب ہے۔





