ادھر چین کے شہر تیان جن میں شنگھا ئی تعاون تنظیم کا سر براہ اجلا س ہوا جو علا قائی تعاون کی سب سے بڑی تنظیم ہے اس کے ممبروں کی تعداد 10ہے تا ہم یہ تنظیم دنیا کے 24فیصد رقبے اور 42فیصد آبادی کی نمائندگی کر تی ہے اس کا معا شی اور سما جی ڈھا نچہ ایسا ہے کہ دوسری علا قائی تنظیم چاہے افریقہ کی ہو یورپ کی یا لا طینی امریکہ کی ہو اس کا مقا بلہ نہیں کر سکتی اس وجہ سے جب بھی SCOکا سر براہ اجلا س ہوتا ہے مغر بی مما لک پر چین کا خو ف طاری ہو تا ہے غیر جا نبدار مبصرین اس خو ف کو نفسیا ت کی انگریزی اصطلا ح میں سینو فو بیا (Cino Phobia) کا نا م دیتے ہیں اس کی متعدد سیا سی، سما جی اور عسکری و جو ہا ت ہیں شنگھا ئی تعاون تنظیم کے حوالے سے دو وجو ہا ت خصو صی طور پر قابل ذکر ہیں پہلی وجہ ہے چین کی اچھی ساکھ اور اچھی شہرت، دوسری وجہ ہے چین کی معا شی اور صنعتی تر قی، ان وجو ہات کی بنا ء پر چین خطے میں سب کے لئے قابل قبول سفارتی طاقت رکھتا ہے
چین کی ا چھی ساکھ یہ ہے کہ وہ کسی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں مدا خلت نہیں کر تا کسی دوسرے ملک پر حملہ نہیں کرتا کسی دوسرے ملک میں فو جی اڈے نہیں بنا تا کسی دوسرے ملک سے فو جی اڈے ما نگ کر پھڈا نہیں ڈالتا کسی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گر د کاروائیوں کے لئے مسلح جتھوں کو مدد فراہم نہیں کرتا، منشیات کی سمگلنگ، اسلحے کی سمگلنگ اور منی لا نڈرنگ یا ہیو من ٹریفکنگ کے بڑے بڑے نیٹ ورک نہیں چلا تا ایک بے آزار اور رکم آزار ملک ہے چین کی معا شی طاقت بھی اس کی اچھی شہر ت کی طرح نظر آنے والی خو بی ہے اور دنیا اس کی متعرف ہے چین کی پیدا واری صلا حیت میں ہر 10سال کی پا لیسی مزید اضا فہ کر تی ہے چین جو پا لیسی بنا تا ہے اُس پر سو فیصد عمل کر کے دکھا تا ہے
2015ء میں چین نے صنعتی شعبے کے لئے عالمی رہنما، مسا بقتی شراکت دار اور تقلید میں بے مثا ل کے تین در جوں میں ایک ہمہ گیر پا لیسی بنا ئی تھی پا لیسی میں سمی کنڈکٹر ز، سو لرپینلز، کمر شل ہوائی جہا زوں کی صنعت میں اخترا عات، مصنو عی ذہا نت، روبوٹکس، بُلٹ ٹرین، الیکٹر ک گاڑیوں کی تیا ری، جنگی جہا ز، ڈرون اور بیٹریوں کی صنعتوں میں نئی ایجا دات پر تو جہ مر کو ز کی گئی تھی دس شعبوں میں سے6شعبوں میں چین نے عالمی رہنما (Global leader) کی حیثیت حا صل کر لی دنیا میں سولر پینلز کی ما رکیٹ کا 80فیصد، ڈرون جہا زوں کی ما رکیٹ کا 75فیصد اور لیتھیئم آئن بیٹریوں کی ما رکیٹ کا 75فیصد چینی کمپنیوں کے پا س ہے عالمی جی ڈی پی میں چین کا حصہ2010 میں 9فیصد تھا 2025میں 17فیصد ہو گیا ہے امریکی معیشت میں مینو فکچر نگ کا حصہ 16فیصد سے کم ہو کر 10فیصد رہ گیا ہے جو صرف 3ٹر یلین ڈالر ہے اس کے مقا بلے میں چین 4ٹریلین اور رہ60بلین ڈا لر کے ساتھ دنیا میں پہلے نمبر پر ہے اور یہ عالمی معیشت کا 26فیصد ہے امریکہ، جر منی اور بھا رت مل کر بھی اس کا مقا بلہ نہیں کر سکتے
اگر علا قائی تنا ظر میں دیکھا جا ئے تو 1990میں بھا رت اور چین معا شی لحا ظ سے برابر تھے 2025ء مین چینی معیشت نے 6گنا تر قی کی ہے جبکہ بھا رت 1990کی سطح پر ہے یہ مسا بقتی میدان میں چین کی بڑی فتو حا ت میں سے ایک ہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹر مپ 2016ء میں پہلی بار اقتدار میں آئے تو ان کا ہدف یہ تھا کہ میں چین کو آگے بڑھنے نہیں دونگا، اپنے پہلے دور حکومت میں وہ بری طرح نا کام ہوا، دوسری بار حکومت میں آیا تو اس کے سر پر چین کا خو ف سوار تھا چنا نچہ تیان جن میں شنگھا ئی تعاون تنظیم کی سر براہ اجلا س نے مغر ب کے سینو فوبیا (Cino Phobia) میں مزید اضا فہ کر دیا ہے کہ ”یہ ٹو ٹا ہوا تارا مہ کا مل نہ بن جا ئے“
مغر ب اس خوف میں بھی مبتلا ہے کہ چین اسلا می ملکوں کی حما یت جا ری رکھیگا، روس کے ساتھ ملکر مضبو ط بلا ک بنا ئے گا، یہ خد شہ اور خطرہ بھی ہے کہ انڈسٹریل اینڈکمر شل بینک آف چائینہ (ICBC) چند سالوں میں عالمی معیشت میں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی اجا رہ داری کو چیلینج کرنے کی پو زیشن میں ہوگا خلا صہ کلا م یہ ہے کہ مغر ب میں چین کا خوف بلا وجہ اور بے سبب نہیں
بے خود ی بے سبب نہیں غا لب
کچھ تو ہے جس کی پر دہ داری ہے





