ریاست چترال پر ریاستی حکمرانوں کے خلاف جب لوگ میدان میں آۓ تو یہ دور برصغیر کی آزادی کے بعد کی ہے 50 کی دھائی میں ریاستی مسلم لیگ بنا کر لوگ میدان میں آۓ پھر یہاں پر حکومت بدل گئی حکومت پاکستان نے مختلف انداز سے ریاست پر اپنی رٹ جاری رکھی پھر 1969ء کو باقاعدہ حکومت پاکستان کے ساتھ ریاست کا الحاق ہوا۔ریاستی حکمران بیدار معز تھے انہوں نے تحریک آزادی ہند میں اپنا حصہ ڈالا اور آزادی سے پہلے ہی ریاست کے نۓ مملکت پاکستان کے ساتھ الحاق کی آمادگی ظاہر کی۔۔1971ء کے عام انتخابات میں اتالیق جعفر علی شاہ اور چترال کے معروف سماجی کارکن نادر خان کا مقابلہ ہوا اس وقت کوہستان بھی چترال کے ساتھ شامل تھا نتیجہ آیا تو چترال میں نادر خان کی برتری تھی مگر مہینے بعد جب کوہستان کا نتیجہ آیا تو اتالیق جعفر علی شاہ جیت گئے تھے وہ اعلی تعلیم یافتہ اور بیدار معز آدمی تھے انہوں نے جمہوریت کی آواز بن کر چترال کے لیے ٹنل بنانے کا اکیلا ایجنڈا اور ایک ہی آواز پارلیمنٹ میں بلند کیا اس آواز کی گونج تھی کہ اس کا نام ہی مسٹر سرنگ رکھا گیا بھٹو سینیر نے چترال کا دورہ کیا اور چترال سے غربت کے بادل چھٹنے لگے۔۔۔ان کے ساتھ توانا آواز قادر نواز خان کی تھی جو صوبائی وزیر بھی رہے انہوں نے ہر فارم میں چترال کے لیے آواز اٹھائی انہی کے دور میں لاواری ٹنل پر کام کا آغاز ہوا اور دو میل تک کام ہو بھی چکا۔۔۔یہ وہ لوگ تھے جن پر مفاد پرستی اور بد عنوانی کا الزام نہیں لگایا جاسکتا۔۔یہ دور 1976ئتک تھا۔پھر ملک میں طویل فوجی حکومت آئی۔۔
پھر 1985ء تا 1988ء کی جمہوریت آئی جو درمیان میں توڑی گئی۔۔اس دوران مرکز میں شہزادہ محی الدین اور صوبے میں سید احمد خان اور ظفر احمد کی نمایندگی تھی۔۔ملک اس وقت امریت کے بل بوتے دولت سے بھرا ہوا تھا خزانہ خالی نہیں تھا۔۔اس دور میں اگرچہ کوٸی بڑا منصوبہ نہیں البتہ چھوٹے موٹے اچھے کام ہوۓ۔ریاست میں سڑکوں،پلوں،صحت اور تعلیم کے میدان میں اچھا کام ہوا۔۔یہ مسلم لیگ کا دور تھا۔
6اگست 1988ء تا 1990ء سید عفور شاہ اور مولانا محمد ولی کا دور تھا سید غفور شاہ بیگم نصرت بھٹو کی چھوڑی ہوئی سیٹ پہ جیتے تھے۔۔یہ دور پی پی پی کا تھا کوئی بڑا منصوبہ ضلع کو نہیں آیا۔۔
1990ئتا 1993 ء شہزادہ محی الدیں اور جماعت اسلامی کے مولانا غلام محمد کا دور تھا۔وہی روٹین کی سیاست تھی۔۔۔
1990ئتا 1996ء مولانا عبدالرحیم اور زین العابدین کا دور تھا مسلہ یہ تھا چترال اپنی روایتی سیاست کا شکار ہوا تھا حکومت کس کی رہی اور ہمارے نمائندے کس جماعت کے تھے۔
1997ئتا 1999ء سید احمد خان اور شہزادہ محی الدین کا دور تھا۔پارلیمنٹ میں کبھی کبھی آواز أٹھتی کچھ بڑیمنصوبے لاۓ گئے کچھ کے لیے آواز اٹھائی گئی مگر درمیان میں پرویز مشرف کی کودیتا ہوئی۔1999ئتا2008ء امر کا دور تھا۔اس دوران 2002ء سے 2007ء کے دورانیے میں مولانا عبد الاکبر چترالی اور صوبے میں مولانا محمد جہانگیر اور مولانا عبدالرحمن تھے۔
2008ئتا 2013ء شہزادہ محی الدین اور صوبے میں غلام محمد اور سلیم خان تھے۔۔
2013 ء تا 2018 ء شہزادہ افتخار الدین اور صوبے میں سلیم خان غلام محمد پھر دوبارا الیکشن کے بعد سید سردار حسین تھے۔۔۔
2018ء تا2023ء مولانا عبد الاکبر چترالی اور صوبے میں مولانا ہدایت الرحمن تھے۔۔۔اب کہ کچھ کہنا قبل از وقت ہے صوبے میں چترال کی تاریخ میں ہمارے پاس ڈپٹی سپیکر کا بڑا عہدہ ہے۔ثریا بی بی کو کچھ کرنا چاہیے تو موقع ہے۔مہتر صاحب کا اپنا سٹیٹس ہے۔۔۔یہ سب جمہوری تاریخ ایسی ہے کہ کوئی پارٹی یہ نہیں کہہ سکتی کہ اس کو موقع نہ ملا اس کو کام کرنے نہ دیا گیا۔۔قوم جانتی ہے یہ بھی جانتی ہے کہ کس ممبر کی کیا کیپیسٹی تھی ان کے دل میں قوم کا درد کتنا تھا وہ خود کے لیے کتنا اور قوم کے لیے کتنا سوچتا تھا۔۔وہ ممبر بننے سے پہلے زندگی کی کس حیثیت میں تھا ممبر بننے کے بعد اس کا لائف سٹائل کیسا ہوا۔۔پارلیمنٹ میں اس کی نمائندگی کیسی تھی۔۔اگر دیکھا جاۓ تو چترال میں زیادہ میگا پراجیکٹ امریت کے دور میں آۓ۔جب صوبے میں عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت تھی تب بھی چترال کے لیے سنہرا دور تھا۔۔لیکن چترال کے لیے خدمات واضح ہیں خصوصی نشست میں فوزیہ بی بی اور وزیر زادہ کی خدمات ہیں۔۔سوال یہ ہے کہ کیا کسی نمائندے کو خود یہ کہنا چاہیے کہ ” میں نے کیا ہے ” یہ اگر اس نے کچھ کیا بھی ہے تو اس کی ذات نے نہیں اس کی کرسی نے کیا ہے۔چترال سیاسی اور جعرافیائی لحاظ خود اہمیت کے حامل ہے۔۔یہ ایک لحاظ سے بفر سٹیٹ ہے۔یہ پن بجلی گھر کے لیے نہایت موزون خطہ ہے۔۔یہ معدانیات اور پہاڑوں کی سر زمین ہے یہ سیاحتی زون ہے۔۔۔بے شک ملک خداداد کے کئی ایسے پسماندہ خطے ہیں جن سے چترال میں ترقیاتی کام زیادہ ہوۓ ہیں لیکن اس ساری جمہوری تاریخ میں یہ نمائندے خود اپنا محاسبہ کریں کہ انہوں نے اس مٹی کے لیے کیا کچھ کیا ہے تو بات واضح ہوجاۓ گی۔ہماری بدقسمتی کریڈٹ لینے سے شروع ہوتا ہے اور کریڈیٹ دینے پہ ختم ہوجاتا ہے۔۔ایک جمہوری دور میں ایک کام شروع ہوا۔۔ جمہوری دور کی تبدیلی کے ساتھ وہ پراجیکٹ بھی ختم کر دیا جاتا ہے۔چترال کی بدقسمتی جنرل ضیاء کے اقتدار کے ساتھ اس وقت آئی جب اس نے لواری ٹنل پراجیکٹ سمیٹ لیا پھر اسی پراجیکٹ کو خوبرو وزیر اعظم گیلانی نے اووٹ سورس کرکے فنڈ ملتان لے گیا ایسے کئی ڈرامے ہمارے حصے میں آۓ ہیں۔۔بیگم نصرت بھٹو مرحومہ جب چترال سے الیکشن لڑ رہی تھی تو مسلم لیگ کے کارکن بلند گو پر اعلان کرکے پھر رہے تھے کہ اگر تو اتنا مخلص ہے تو لڑکانہ سے الیکشن کیوں نہیں لڑتیں اب طلحہ محمود صاحب پر بھی یہی الزام ہے کہ کوہستان سے الیکشن کیوں نہیں لڑتے وہ اتنا پسماندہ علاقہ ہے کہ کسی زمانیمیں چترال کے ساتھ انتخابی حلقہ تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ لیڈرز خود چترال آتے ہیں الیکشن لڑتے ہیں یا ان کو لایا جاتا ہے یہ سب ڈرامہ بازی ہے۔۔۔ایک طرف مقامی لیڈروں کی طرف سے ان کی مخالفت ہے دوسری طرف یہ لوگ معتبر پارٹیوں دعوت اور خواہش پہ آتے ہیں۔۔لیڈروں کی طرف سے عوام کو کیا باور کرایا جاتا ہے یہ مضحکہ خیز ہے بہت ممکن ہے کہ ان کو لانے یا ان کے آنے کے پس منظر میں کئی نیت پنپ رہی ہو لیکن بہ ظاہر لوگوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔۔پارلیمنٹ میں اٹھی طلحہ محمود کی آواز توانا آواز ہے۔۔پسماندہ چترال کی حقیقی آواز۔۔۔کسی نمائندہ نیچترال کی پسماندگی کی ایسی دھائی نہ دی۔۔۔13 سالوں میں تورکھو روڈ کی کرپشن پر کسی نے بات نہیں کی۔ایوان بالا اور ایوان زرین میں ایسے نمائندوں کی تاریخ محفوظ ہے کہ انہوں نے کبھی ایک لفظ بھی نہیں بولا۔یا تو ان کی آواز صدا بہ صحرا تھی یا ان کی اوقات ایسی تھی البتہ ذاتی مفاد کے ثبوت قوم کے پاس ہیں۔۔۔یہ سارے نمائندے کسی فارم میں آکر اگر بات کرتے ہیں تو کم از کم ان کا ماضی ان پہ ہنستا ہے۔۔شہزادہ افتخار الدین نے جب کچھ مستقبل بینی کا مظاہرہ کیا کچھ پروجیکٹ لاۓ تو قوم نے اس کو ریجکٹ کیا۔ اگر اس ساری جمہوری تاریخ میں ان کی کارکردگی کا تقابلی جاٸزہ لیا جاۓ تو کسی کے ہاتھوں کوئی انقلاب نہیں آیا۔ان کے حصے میں کلاس فور بھرتی کرنے سے لے کر پوسٹیں بیجنے تک کارکردگیاں ہیں کمیشن لینے سے لے کر کرپٹ عناصر کی اندھی حمایت تک کی کارکردگیاں ہیں۔۔قصور قوم کے بار بار آزمانے کی مشق بھی ہے۔۔کسی نظریے،کسی پارٹی منشور اور ایجنڈے سے بالا تر ہو کر نمائندے منتخب کرنے کے شاخسانے بھی ہیں جو ہماری سستی سیاست اور بے نام جمہوریت کی دھندلی تاریخ ہے۔۔ آجکل تو ماشا اللہ نمائندوں کی فوج ظفر موج ہے۔پرویز مشرف کی روشن خیالی نے کم از کم پارلیمنٹ کو چہروں سے تو بھر دیا ہے۔ایک طبقہ تو مراعات یافتہ ہوا ہے۔کام ہو یا نہ ہو استعارہ تو بنیں گے کام کا نہ سہی۔۔۔۔میرے اور بھائی سیف الدین زرگراندہ کے درمیان یہ ساری گفتگو اس بات پر اختتام پذیر ہوئی کہ اگر کسی نے کچھ کیا ہے تو اپنی نمائندگی کا حق ادا کیا ہے قوم کو اپنے احسان مند نہ سمجھے اور شکوہ بھی نہ کرے کہ اس کو موقع نہ ملا۔۔اپنا ماضی نہ دہراۓ کیونکہ ماضی بڑا ظالم ہے جھوٹ نہیں بولتا یہ یادوں کی وہ سکرین ہے جہان پہ صرف سچ نظر آتا ہے۔۔۔۔
رات جل اٹھتی ہے جب شدد ظلمت سے ندیم
لوگ اس وقفہ ماتم کو سحر کہتے ہیں۔۔۔
تازہ ترین
- ہومنو تعینات ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر لوئر چترال رفعت اللہ خان (PSP) نے پولیس سہولت مرکز زرگراندہ کا دورہ کرکے مختلف شعبہ جات کا معائنہ کیا۔
- ہومنو تعینات ڈی۔پی۔او لوئر چترال رفعت اللہ خان(PSP) نے سٹی پولیس اسٹیشن چترال کا معائنہ کیا
- مضامینداد بیداد۔ پشاور کی تزئین و آرائش۔ ڈاکٹرعنا یت اللہ فیضی
- ہومڈسٹرکٹ پولیس آفیسر لوئر چترال رفعت اللہ خان (PSP) نے آج باقاعدہ طور پر اپنے عہدے کا چارچ سنبھال لیا۔
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔’نظام ضرور بدلے گا “۔۔محمد جاوید حیات
- ہوملوئر چترال ٹریفک وارڈن پولیس کی غیر قانونی فلیش لائٹس اور سلنسرز کے خلاف مہم
- ہوممحکمہ صحت خیبرپختونخو کے نئے بھرتی ہونے والے میڈیکل آفیسرزکو تقررنامے جاری
- ہوملیبارٹی ٹیسٹوں کے نرخنامے ہسپتالوں میں نمایاں مقامات پرآویزا کئے جائیں۔ وزیر صحت کی ہدایت
- ہومدادبیداد۔۔۔پشاور تعلیمی بورڈ کا بہترین اقدام۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہومعمران خان کو رہاکراؤ مہم کا آغازچترال سے؛ پریڈ گراونڈ میں پی ٹی آئی کا جلسہ، مرکزی رہنما احمد خان نیازی ودیگر کی شرکت





