دھڑکنوں کی زبان ۔۔”شاہنشاہ تدریس”۔۔محمد جاوید حیات

Print Friendly, PDF & Email

سرے راہے ایک افسر شاگرد کاسامنا ہوا اپنی قیمتی گاڑی روکی۔۔اللہ بھلا کرے گاڑی سے اترے۔۔گلے سے لگے ہاتھ تک چوما پھر گاڑی میں موجود اپنی فیملی کو مخاطب کرکے کہا۔۔۔یہ شاہنشاہ تدریس ہیں۔۔شرم سی آئی۔۔میں ہاتھ اس کے منہ پہ رکھنا چاہا۔۔۔بیٹا!یہ کیا تعلی ہے مجھے تو ڈھنگ سے کوئی مضمون آتا ہی نہ تھا پھر پیڈوگوجی سے نابلد تھا یہ کیا ظلم ڈھا رہے ہو۔۔انھوں نے کہا تیری باتیں تیری معلمی پہ مہرہ ہیں۔سر آپ کہا کرتے تھے کہ جھوٹ رسوائی ہے اور سچ تمہیں بہادر بناۓ گا۔ہم نے دیکھ لیا سر! کہ جھوٹ نے ہمیں ڈرپوک بنالیا اور سچ نے ہمارا دل،ہمارے بازو مضبوط کیے ہماری رگوں میں گرم خون دوڑنے لگا ہماری آنکھیں شاہین کی ہوگٸیں۔۔سرإ آپ کہا کرتے تھے دیانت تمہارا لباس ہے تمہیں منفرد بناتی ہے تمہارا سر جھکتا نہیں ہے تمہارا دامن صاف رہتاہے تمہیں زندگی کی ساعتوں میں لذت محسوس ہوتی ہے تمہیں لگتا ہے کہ تم شاہنشاہ ہو تمہارے سامنے کسی کی مجال نہیں کہ کوئی غیر معیاری لفظ بول سکے تم وقت کے ولی بن جاتے ہو۔تمہارے ساتھ حق کی مدد ہوتی ہے۔تمہارے کام میں برکت ہوتی ہے۔۔دکھ درد تمہارے پاس پھٹکتے نہیں زندگی تمہارے لیے آسان بن جاتی ہے قناعت کی دولت تمہیں عطا کی جاتی ہے۔سرإ کہا کرتے تھے کہ محبت سے لوگوں کو جیت جاٶ۔احترام کرو احترام مل جاۓ گا روزی روٹی اللہ کے ہاتھ میں ہے لالچ نہ کرو۔کہا کرتے تھے کہ اپنے رب سے زندگی کی بھیک مت مانگو قناعت اور معیار کی بھیک مانگو۔کہا کرتے تھے کہ نوکر نہیں آقا بن جاٶ۔۔ڈیپنڈنٹ نہیں انڈیپنڈنٹ ہو جاٶ۔ہم کہا کرتے تھے سرإ ہم تو یہ سب کچھ نوکری کے لیے محنت کر رہے ہیں ہم انڈیپنڈنٹ کیسے ہو جائیں۔۔۔ کہا کرتے تھے اہل بنو قابل بنو اپنے کام میں ماہر بنو۔۔قابل کلرک نالاٸق افسر کا آقا ہوتا ہے۔افسر ڈیپنڈنٹ اور کلرک انڈیپنڈنٹ بن جاتا ہے۔۔سر إ کہا کرتے تھے کہ بچوإ دعا مانگو کہ یا اللہ دوسروں کی عزت ہمارے ہاتھوں محفوظ رکھ ہماری عزت دوسروں کے ہاتھوں محفوظ رکھ۔۔۔سرإ تو کہا کرتے تھے کہ بچوإ تمہارا دفتر تمہارا امتحان ہال ہے۔۔دفتر میں جو وقت ہے وہ تمہارا نہیں قوم کا وقت ہے اس کو ضائع نہ کرو پل پل کا حساب کل قیامت کے دن دینا ہوگا۔۔تمہاری ڈیوٹی تمہارا سوالنامہ ہے خوب احتیاط سے پرچہ حل کرو۔۔تمہارا مسکراتا چہرہ تہمارا تعارف اور بہترین سفارش ہے لبوں پہ ہنسی دوسروں کے لیے تمہاری طرف سے انعام ہے۔۔تو کہا کرتے تھے کہ انسانوں کے ہجوم میں اپنے أپ کو بھول جاو۔۔اپنا عہدہ،اپنا سٹیٹس،اپنا مال جائیداد،اپنی نسلی تفاخر سب بھول جاو اس پر یقین کرو کہ تم انسان ہو سوچو کہ اچھے انسان ہو یا برے ہو۔انانیت کے بت کو توڑو بتکدہ صفات کو خاک سمجھو۔۔زندگی ایک بار ملی ہے مت گنواٶ اسے۔۔۔استاذ نے تڑپ کر کہا بیٹاإ یہ تو والدین کے پڑھانے کی چیزیں تھیں اگر ایسا ہے تو شاہنشاہ تدریس تو والدیں ہیں۔یہ تو اکیلے استاذ کا کام نہیں یوا۔ہاں بیٹاإ والدیں کو چاہیے کہ وہ بچوں کو زندگی کی تلخیاں پڑھائیں۔ان کو تنگ دستی اور مجبوری کا درس دیں۔ان کی جیب پیسوں سے خالی رکھیں۔ان کو پیٹ کاٹنا سیکھائیں ان کو پڑھائیں کہ درد اور آنسووں کی قیمت کیا ہے۔ان کو آرام سے زیادہ مشقت کا درس دیں۔۔ان کو صبر اور برداشت کی مشق کرائیں۔ان کو بھوک پیاس سے اشنا رکھیں۔ان کو سمجھائیں کہ پرانے کپڑے،پھٹے جوتے،خالی جیب کیا ہوتی ہے۔۔ان کو اصراف سے دور رکھیں۔تب یہ زندگی کی جنگ لڑنے کے لیے تیار ہوجائیں گے۔۔بیٹا! آج کی یہ بے چین اولاد اس درس سے نا اشنا ہے اس وجہ سے زندگی کی تلخیاں برداشت نہیں کرسکتا۔جب تھوڑی سا ان کی عیاشی میں جھول آجاتا ہے تو زندگی ہی کو ختم کر دیتے ہیں۔بیٹاإ شاہنشاہ تدریس تو والدیں ہوتے ہیں اپنی اولاد کو شیر بناتے ہیں۔ان کی ذات شرافت کی خوشبو،دیانت کے ہیرے،اخلاق کے موتیوں،تربیت کے جوہر اور الفاظ کے پھول سے بھری جاتی ہے۔تب جا کے وہ گلشن انسانیت میں ہرے بھرے رہتے ہیں۔ان کا کردار ان کو زندہ رکھتا ہے۔۔وہ مرتے نہیں۔۔بیٹاإ اگر میں نے آپ کو تھوڑی سی زندگی پڑھائی ہے تو اس پہ فخر ہے یہ لو پھر سے آپ کی پیشانی پہ بوسہ دیتا ہوں۔۔۔۔