دھڑکنوں کی زبان ۔۔”سالگرہ”۔۔محمد جاوید حیات

Print Friendly, PDF & Email

زندگی میں پہلی بار کا عجیب تجربہ تھا جب شریک حیات نے فون ہر اطلاع دی کہ میرے بیٹے کی 13 دسمبر کو سالگرہ ہے اس کے لیے کیک بنا کے لاٸیں۔۔ ایک لمحے میری زبان گنگ ہوگٸ میں نے سوچا کہ میں یہ کیا سن رہا ہوں۔۔میرے گھر میں کبھی اس کا تجربہ نہیں ہوا میرے بھاٸیوں بہنوں خود میرے بچوں کا کبھی سالگرہ نہیں منایا گیا نہ کبھی یہ دن یاد رکھا جاتا ہے نہ کبھی یہ زیر بحث آتا ہے۔میرا بیٹا ہماری آخری اولاد ہے ماں کا لاڈلا ہیاور ظالم کو رب نے صلاحیتوں کی عنایات سے بھر دیا یے۔قاری یے،نعت خوان ہے،نغمہ گو ہے، کھیلاڑی ہے۔امتحانات میں اول آکر انعامات جیتا ہے اس لیے بندہ اس کی فرماٸش بجا لانے پہ مجبور ہوجاتا ہے۔گھر میں میرے علاوہ بچوں اور ماں کا واٹس اپ گروپ ہے اس میں آپس میں گفت و شنید ہوتی ہے ہنستے مسکراتے ہیں لڑتے بڑتے ہیں ایک دوسرے کو سناتے رہتے ہیں۔یہ شریر بھی پہلی مرتبہ اپنے بہن بھاٸیوں کو گروپ میں سرپراٸز دے رہا تھا کہ یہ میرا سالگرہ اور اس کی تقریب۔۔۔۔ کیک کا ڈیمانڈ دیاگیا تھا اور احتیاط سے لایا بھی گیا تھا۔۔میں خاموش اور سہما ہوا تھا ماں بھی کوٸی سرگرمی نہیں دکھا رہی تھی۔بڑی بہن عصر سے ایک کمرے میں کسی ضروری کام میں جتی ہوٸی تھی۔میں عشاء کی نماز سے واپس آیا تو سارے گھر والے اسی کمرے میں تھے۔۔میں گھر کے بڑے کمرے میں خاموشی سے بیٹھا رہا۔فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بار بار دل کو دھڑکا رہی تھی۔۔۔” میری امت (مسلمانوں)کی دو عیدین ہیں”۔۔
اور کوٸ جشن منانے کی ضرورت نہیں۔۔۔۔فخر دوعالم کی یوم ولادت۔۔۔سالگرہ۔۔۔۔جشن منانے سے منع کیا گیا۔۔ اسلام میں اولاد کے لیے عقیقے کی سنت ہے تاکید بھی ہے۔۔سالگرہ کہیں سے ثابت نہیں۔۔۔مسلمان کا معیار رسول مہربان ص کی سنت ہے۔۔۔جو چیز قران و احادیث سے ثابت ہے اصحاب رسول ص نے ان پر عمل کیا ہے وہ مسلمان کے لیے قابل عمل ہے۔
میرا بیٹا اپنا سالگرہ منارہا ہے۔۔میں ان سوچوں میں ڈوبا ہوا تھا کہ ان کی ماں کیک کا ٹکڑا پلیٹ میں رکھ کے ہنستی ہوٸی آٸ میری افسردگی دیکھ کر اس کے چہرے کی روشنی بجھ گئی۔۔۔۔اس نے ناراضگی سے کہا۔
بیٹا نہیں عضب کا شریر ہے جو جی میں آتا ہے کر گزرتا ہے۔۔۔۔۔شیطان۔۔۔Imp۔۔۔۔ میں خاموش رہا کیک کا ٹکڑا پلیٹ میں ہڑا میرے سامنے میز پہ رکھا ہوا تھا کہ سارے بچے آگئے۔۔۔میں نے پہلے استفسارکیاکہ تقریب کیسی رہی۔۔۔بچے کو احساس تھا کہ اس نے نیا کام کرکے اچھا نہیں کیا۔۔میں نے کہا بیٹا۔۔۔۔یہ اسلام کی رسم نہیں ہے۔۔۔فخر دو عالم ص کی سنت نہیں ہے۔ہماری اسلامی تہذیب کا حصہ نہیں ہے۔۔جان پدر ہمارا اوڑھنا بچھونا اسلام ہے۔جو کچھ اسلام میں ہے وہ ہمارا معیار ہے۔۔بیٹا! ابھی بورڈ امتحانات کے داخلیکا موسم ہے آپ کے کتنے ساتھی ایسے ہونگے جو اپنی امتحانی فیس نہیں بھر سکیں گے۔ان کے ابو لوگ کسی سے قرض لے کے ان کی فیس بھریں گے بیٹا! اگر تو اس کیک کی قیمت دو ہزار روپے اپنے کسی ساتھی کو چھپ کے سے دیتے تو وہ ساری زندگی تجھے دعا دیتا۔۔۔۔بیٹا! اسلام ہماری شناخت یے کیونکہ ہم مسلمان ہیں۔۔۔ہمارے نبی کی سنت ہماری پہچان ہے۔۔۔بیٹا! جو کام کرو پہلے سوچو کہ کیا یہ کام میرے نبی کی سنت یے اگر ہے تو قابل عمل ہے اگر نہیں تو قابل عمل نہیں۔۔۔دنیا والے تمہارا معیار نہیں۔۔دوسری تہذیبیں تمہارا معیار نہیں۔۔دوسرے بڑے لوگ تمہارا معیار نہیں۔۔۔اسی تاریخ کو دنیا کی کتنی ہستیوں کا سالگرہ ہے وہ بخوشی مناتے ہیں مگر بیٹا یہ تمہارے أقاصلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نہیں ہے۔۔۔میرا بچہ سہم گیا تھا اس کے منہ پہ ہواٸیاں اوڑ ر ہی تھیں۔۔ان کی ماں کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔۔۔میرے سارے بچے سہم گئے تھے۔۔میں نے بے ساختہ درود شریف پڑھا۔۔۔الھم صلی علی۔۔۔۔۔۔پھر میں نے اپنے آنسو روکتے ہوۓ دھیمے لہجے میں کہا۔۔۔جان پدر یوم پیداٸش مبارک ہو اللہ تمہیں دین مبین کا سپاہی بنا دے