نوجوان قوم کی آنکھوں کا تارہ اور استاذ معمار قوم۔۔۔یہ دو حقیقتیں ہیں۔۔۔ مجاز بھی ہیں اس لیے کہ اگر یہ دو طبقہ اپنا معیار کھو دیں تو ان سے کچھ اچھے کی توقع فضول ہے۔استاذ کے ہاتھوں قوم کی تربیت ہوتی ہے نونہالان قوم ان کے لگاۓ ہوۓ پودے ہیں یا تو یہ تناور درخت بنتے ہیں یا سوکھ کر نخلستان انسانیت کو مزید بنجر کر دیتے ہیں۔۔دنیا میں ان کی تربیت کو سب سے اہم سمجھا جاتا ہے اس کے لیے تربیت کے نۓ نۓ طریقے متعارف کیے جاتے ہیں اور ان پر عمل کیا جاتا ہے۔بچے کی تعلیم و تربیت کے لیے معاشرے، گھر اور والدین کے علاوہ سکول جو ہے وہ بہت اہمیت رکھتا ہے یہی اکیڈیمی ہیجہاں یا تو عقیق کٹ کٹ کر ہیرا بنتے ہیں یا ٹوٹ ٹوٹ کر خاک میں مل جاتے ہیں۔اساتذہ کی خاص کر پراٸمری اساتذہ کی مسلسل تربیت(continous professional development CPD) نام سے ایک کورس کا آغاز ہوچکا ہے یہ دو ہزار سترا سے پیکٹس میں ہے۔گورنمنٹ کے تربیتی ادارے Rpdc ان ٹریننگز پہ کام کر رہے ہیں۔اس سلسلے میں مورخہ پانچ ستمر دو ہزار چوبیس (05/09/2024) کوپورے صوبے سے ماسٹر ٹینرز کا ایک گل دستہ RPDC ایبٹ آباد میں جمع کیاگیا ہے۔PPD کے ماہرین اس ٹرینگ کا انتظام کر رہے ہیں۔اساتذہ کو تربیت مہیا کر رہے۔پورے صوبے سے اساتذہ کے ہیروں کو یہاں پر بلایا گیا ہے جو ایم فل یا پی ایچ ڈی سکالر ہیں یا تو اپنے پیشے کے تجرب کار ماہریں ہیں۔ان کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے جن سے توقع کی مد میں اس قوم کا صرف روشن مستقبل ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ڈاکٹر عید محمد صاحب اس کے نگران ہیں۔یہ مختلف گروپوں میں تقسیم کیے گیے ہیں ان میں سے گروپ 3 میں چترال اپر لوٸر،درہ أدم خیل ،شامل ہیں۔چترال اپر اور لوٸر سے اساتذہ کا جو گل دستہ شامل کیا گیا ہے ان سب کی بڑی(رچ پروفاٸل) ہے سب یا تو اپنے فیلڈ کے ماہریں ہیں یا ایم فل پی ایچ ڈی سکالر ہیں۔اپر چترال سے اے ایس ڈی ای او الحاج اور عنایت،نوید اختر،روحی خان،عذرا،لوٸر سے ہیڈ ماسٹر ندیم،نوید،ایس ایس احسان،عبید الرحمن، سہیلہ رانی،اصفیا طارق اور ان سب چراغوں میں ایک بے چراغ جگنو بھی شامل ہے۔چار ستمبر کی صبح جب اپر چترال سے مسلسل ستاٸس گھنٹے سفر کرکے پہنچا تو اساتذہ، پھر ان کی ہلچل، پھر منتظمیں کی مستعدی دیکھ کر تھکن کوسوں دور ہوگٸ۔ہمارے گروپ میں طفیل عباس سر اور میم میمونہ کی ذمہ داری تھی۔تربیت کی قندیل ان کے ہاتھ میں تھی۔ہم بیٹھ سے گئے بس غیر رسمی سی ابتداء ہوٸ۔ندیم چترالی کی آواز میں قران عظیم الشان کی تلاوت تھی پھر طفیل صاحب کا دبنگ انداز۔۔۔کٸ سال ٹریننگ کی جھنجھنٹ نے ان کو بڑا تجربہ کار بنادیا ہے۔پھر میم کا تعارف ہوا۔کرشماتی شخصیت میں ایک استاذ کی ساری خوبصورتیاں جمع ہیں۔ ساتھیوں کے ساتھ اکثر ٹریننگ کے تجربے کی سوعات محفوظ تھیں سب نے اپنا تعارف کرایا۔ سب تعارف سن کر کسی بہت پرانے چترالی لوک شاعر کا شعر یاد آیا۔۔۔ڈاق راہو چھتیے دوردانا تو اسمان۔۔۔۔۔کھیشے قلاہوران روغونیکہ تہ کشمان۔۔۔۔۔ترجمہ۔۔۔۔بندہ راہ کی دھول ہے اے میرے ہیرو! تو أکاش کی بلندیوں پہ ہے۔۔لونگ کی کاشت کر زمین بڑی زرخیز ہے یعنی موتیاں بکھیر کہ تیری ذات سے وابستہ ہیں۔۔اساتذہ کے اس گل دستے میں قندیلیں ہی قندیلیں تھیں۔پھر سی پی ڈی، ٹریننگ،استاذ، کلاس روم،بچہ ان سب پہ جب تبصرہ ہونے لگے تو سینیر استاذ کو بہت کچھ یاد آگئے۔ ان کی یادوں کی سکرین میں وہ اساتذہ بھی آگئے جو باہر بیٹھے ہیں اندر کلاسوں میں ان کی کلاس لگی ہے قیامت کا شور ہے مربی کو کوٸی پرواہ نہیں۔ان کی یادوں کے کینوس میں وہ منظر بھی چھپے تھے کہ استاذ ہاتھ میں ڈنڈا لیے خاموش کھڑا ہے بچے سہمے ہوۓ دب کے بیثھے ہیں۔استاذ کو امتحان کی ڈیوٹی،الیکش مردم شماری کی ڈیوٹی،پھر ٹورنامنٹس،مذہبی اجتماعات اور چھٹیاں، فوتگی،جنازہ،سوشل میڈیا،ہاتھ میں سمارٹ فون خواہ استاذ کلاس میں ہی کیوں نہ بیٹھا ہو۔۔پھر ایک ہلکی کی سی مسکراہٹ ان کے ہونٹوں پہ نمودار ہوٸ۔۔کلاس روم ہے استاذ دنیا و ما فیہا سے بے خبر پڑھا رہا ہے۔۔ یہ لو پھٹے جوتوں کے ساتھ چاند چہرے پہ افسردگی چھاٸ ہوٸ لیکن استاذ گلشن انسانیت کے اس پھول کو سینے سے لگا رہا ہے۔اس کی اکھیوں میں اتری افسردگی دور کر رہا یے۔۔یہ لو نتیجہ نکلتے ہیں تو اس کی آنکھوں میں شکرییکے آنسو ہیں۔۔یہ کہہ رہا ہے۔۔میرے شاگرد پاس ہوگۓ۔۔۔میرا نتیجہ اچھا آیا۔۔پھر کوئی سی ایس ایس کر رہا ہے اس کا دل دھڑکتا ہے اس کو کلاس روم اور اس کی معلمی یادآرہی ہے۔پھر بڑے آفیسر کا سامنا کر تا ہے ڈرتا ہے کہ یہ اگر اس کا شاگرد ہے تو اسے دیکھ کر شاگرد کو کیا کیا یاد أگۓ۔۔ایسا نہ ہو کہ اس نے اسے نہ پڑھایا ہو۔۔اس نے اس کی کلاس نہ لی ہو۔۔اس نے اس کا وقت ضاٸع کیا ہو۔یہ اپنے آپ کو شاگرد کا قیدی سمجھتا ہے۔بوڑھے استاذ کو کیا کیا یاد آرہے ہیں۔۔امریکہ چین میں بچے لیبارٹیوں میں تجربات کر رہے ہیں۔۔ان کے ہاں لیبارٹی نام کی کوئی چیز نہیں۔۔اغیار کے ہاں بچوں کی ضروریات ان کی اولین ترجیح ہے یہاں بچوں کے پاس کتابیں نہیں ہیں۔۔ان کا استاذ محنتی اور پیشہ ور ہے یہاں استاذ کو نہ اپنی محنت کا احساس ہے نہ پیشے کی قدر۔۔۔پھر بوڑھا استاذ سی پی ڈی کی کلاس میں اپنے آپ کو پاتا ہے۔اساتذہ بیٹھے ہیں ان کو محنت کرنے کی نصیحت کرتا ہے۔اللہ کا واسطہ دیتا ہے مجبور ہو کر تنخواہ کا واسطہ دیتا ہے۔اس واسطے پر حاضریں سیخ پا ہوتے ہیں۔۔۔یک زبان ہو کر کہتے ہیں۔۔۔ اپنی مراعات یافتہ طبقہ اشرافیہ سے پوچھو وہ کتنی محنت کر رہے ہیں۔استاذ کو اس قوم نے دیا ہی کیا ہے۔معاشرے کا ٹھکرایا ہوا مظلوم طبقہ۔۔۔ یہ سن کر استاذ کو ایک شعر یاد آرہا ہے۔۔۔قبر ٹکرا کے میری کر دیا زندہ مجھ کو۔۔۔۔تری ٹھوکر میں یہ اعجاز کہاں سے آیا۔۔۔۔۔استاذ کہتا ہے۔۔جو اشرافیہ دفتروں میں فرعون ہے وہ کبھی تمہاری کلاس میں بیٹھا بچہ تھا۔ذرا یادوں کو واپس لاٶ تم نے ایمانداری اور شرافت کا کتنا سبق ان کو پڑھایا تھا۔سی پی ڈی کی کلاس میں بیٹھے سب کے سر جھک جاتے ہیں۔۔ میمونہ میم کی آواز أتی ہے۔۔۔بیٹھک میں چاۓ کا وقفہ ہے۔۔ ہم باہر نکلتے ہیں۔۔لان میں کھڑے غیر رسمی گفتگو کر ریے ہیں۔۔اصفیا جو انگلش لٹریچر کے ایس ایس ہیں ثریننگ پہ نٸ آئی ہیں۔۔۔کہتی ہیں سر! اگر استاذ کے سینے کے اندر کا استاذ زندہ ہوتا ہے تو سب کچھ ممکن ہے۔۔انقلاب،اصلاح،ترقی،مضبوطی، معیار،کردار بلکہ قوم کی پوری زندگی استاذ کے ہاتھ میں ہے۔۔بوڑھے استاذ نے کہا بیٹا! تو نے زندگی کو شروع ہی کب کیا ہے یہی ایک ادھ سال کی سروس ہے۔۔۔بیٹا! زندگی گزارو مت زندگی سے لڑو۔۔زندہ اور بہادر زندگی کو گزارا نہیں کرتے زندگی سے لڑتیہیں اور جیت جاتے ہیں۔۔ڈاکٹر عید محمد کی پیشانی پہ بھی روشنی اس قوم کا مستقبل ہے۔۔اس تربیت سے نکلے ہوۓ یہ تربیت کنندگان اس تربیت کے فانوس کو لے کے اگے بڑھیں گے۔۔ان شا اللہ اس قوم کی مضبوطی کی چابیاں صرف استاذ کے ہاتھ میں ہیں۔۔
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات