قیا م پا کستان سے پہلے جو لائی اور اگست کے مہینوں میں میدا نی اضلا ع اور ڈویژنوں کے حکام مون سون کی شجر کا ری مہم چلا یا کر تے تھے، لا ہور، گوجرانوالہ، ٹنڈو آدم، ایبٹ اباد اور بنوں جیسے ڈویژنوں میں لا کھو ں پودے لگا ئے جا تے تھے ان کو تین ما ہ بارش کا پا نی ملتا تھا تو جڑیں مضبوط ہو تی تھیں، اگلے سال پتے، شگوفے اور کونپلیں نکل آتی تھیں، انگریزوں نے ملک کے دوسرے حصوں کے لئے مو سم بہا رکی شجر کاری کا پرو گرام وضع کیا تھا چترال، غذر، وزیر ستان اور دیگر علاقے مون سون سے با ہر واقع ہیں ان علا قوں میں مو سم بہار کی شجر کا ری مہم چلا ئی جا تی تھی آج کے اخبارات میں خبر آئی ہے کہ شما لی وزیر ستان اور چترال لوئیر میں سرکاری میٹنگ ہوئی، مون سون کی شجر کاری کے لئے سکول، کا لج اور یو نیورسٹی کے ہر طا لب علم کو 10پو دے دینے کا حکم دیا گیا، وہ پودے لگا کر تصویر رپورٹ کے ساتھ پیش کرینگے تو ہر پودے کے عوض 10روپے یعنی 10پو دوں کے لئے 100روپے دیئے جا ئینگے یہ الگ بات ہے کہ روپے چند سال بعد ملینگے اور 10جو تے گھسا نے کے بعد ہی ملینگے مگر یہ چنداں ضروری بات نہیں اصل بات یہ ہے کہ چترال، غذر، یا سین، اشکو من اور وزیر ستان جیسے کئی اضلا ع میں مون سون کی کوئی بارش نہیں ہوتی، جو لائی اور اگست میں زمین پا نی کو ترستی ہے ایسے اضلا ع میں مون سون کی شجر کا ری ضائع جائیگی سارے پودے دومہینوں میں سوکھ جائینگے اس مہم کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا مگر یہ بات میں کیوں لکھ رہا ہوں محکمہ ما حو لیات، محکمہ مو سمیات، محکمہ جنگلات سے تعلق رکھنے والے بڑے بڑے افیسر یہ بات کیو ں نہیں کہتے؟ سوال سو ملین ڈالر کا ہے اور جواب دو سو ملین ڈالر کا آئیگا جوا ب یہ ہے کہ ہمارا دفتری نظا م بر باد ہو چکا ہے دفتروں میں بھو نڈ ی نقالی کے سوا کچھ نہیں ہو تا اسلام اباد، لا ہو ر یا کرا چی میں ایک افیسر نے مرا سلہ بھیجا مون سون کی شجر کاری مہم چلا ؤ اور اپنی رپورٹ بھیجو کہ کتنے پودے لگا ئے گئے لو ئیر چترال اور وزیر ستان کے ڈپٹی کمشنروں نے لا ہور اور ایبٹ اباد کی انتظا میہ کو دیکھ کر میٹنگ بلا ئی میٹنگ میں ذیلی محکموں کو اہداف دیئے گئے محکمہ تعلیم ایک لا کھ 60ہزار پودے، محکمہ صحت 40ہزار پودے محکمہ پو لیس 20ہزار پودے دیگر محکمے 4لا کھ پودے کل ملا کر 6لا کھ پودے لگائے جا ئینگے ایک پو دا بھی جڑ نہیں پکڑ ے گا، پتے نہیں لائیگا 6لا کھ پودے ایک ضلع میں ضا ئع ہوئے مون سون سے محروم 14اضلاع میں 84لا کھ پودے ضائع ہوئے، ایک سال کی بات نہیں یہ پو دے ہر سال ضائع ہو تے ہیں، ہر سال یہ پو دے کیوں لگا ئے جا تے ہیں؟ اوپر سے اندھوں نے حکم بھیجا ہے ما تحت اندھے اس حکم کو بجا لاتے ہیں اس طرح کے حکم کی ایک اور مثال ہے پشاور یو نیورسٹی اور صدر بازار میں پیلے رنگ کی کار کا داخلہ منع ہے، 20سال پہلے ایک جگہ دھما کہ ہوا دھما کہ میں پیلی ٹیکسی استعمال ہوئی تھی اوپر سے حکم دیا پیلی کار کا داخلہ منع ہے گویا دہشت گرد 20سال بعد بھی پیلی کار میں گھوم رہا ہے ایک اور مثال ہے دسمبر 2015ء میں پشاور صدر کے آرمی پبلک سکول میں فائرنگ ہوئی ڈیڑھ سو بچے اور ان کی استا نیاں شہید ہو گئیں اوپر سے حکم آیا تما م سکولوں کی چھتوں پر مو رچے قائم کرو، دروازوں پر ریت کی بوریوں کے الک الک بنکر قائم کرو، حکم پر اس طرح احمقا نہ عمل ہوا کہ 14000فٹ کی بلند ی پر واقع وادی بروغل کے پرائمیری سکول میں بھی مو رچے بنا ئے گئے، بچے حیران ہوئے تو ان کو بتا یا گیا کہ سکول پر حملہ ہو نے والا ہے حا لا نکہ یہ دنیا کا سب سے زیا دہ پُر امن گاوں ہے حکام بالا نے آنکھیں بند کر کے حکم دیا ما تحتوں نے آنکھیں بند کر کے اس احمقا نہ حکم پر عمل کر کے معصوم بچوں کو خوف زدہ کر دیا، حکام کو پُر امن اور بد امن اضلا ع کی تمیز نہیں تھی، شجر کاری والے انا ڑی حکام کو مون سون والے اضلا ع اور مون سون سے محروم اضلا ع کی تمیز نہیں وہ چترال، غذر، وزیر ستان اور دیگر اضلا ع کے لئے مو سم بہار کی شجر کاری کی تجویز پیش کرنے کی اہلیت اور صلا حیت سے محروم ہیں اس لئے ہر سال خشک پہا ڑی علا قوں میں مون سون کی شجر کاری کے نا م پر 84لا کھ پو دے ضا ئع ہو تے ہیں۔