کہتے ہیں کہ ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے۔وہ اپنی اولاد یعنی رعایا کا ہمیشہ بھلا سوچتا ہے۔ان کی تکلیف اور درد کو محسوس کرتا ہے۔ اور مشکلات و مسائل دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وطن عزیز جو کہ ریاست ہے،ماں تو ہیلیکن اب تک اس کے سلوک اورجو طور اطوار مشاہدے میں آئے ہیں۔ سیمعلوم ہوتا ہے کہ یہ سگی ماں نہیں سوتیلی ماں ہے۔ ماں کا اپنے بچوں سے پیار نہیں،بچوں کی تکالیف کا ان کو احساس ہی نہیں۔ اور نہ انہیں اولاد کے زمرے میں شمار کیا جا رہا ہے۔ یوں اولاد کی شکل میں رعایا اتنے مایوس ہوچکے ہیں۔ کہ ان کو اچھائی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ہر طرف بے قاعدگی و بے ضابطگی، اقربا پروری، کرپشن، بدیانتی کا بازار گرم ہے۔ اور تو اور قدرتی آفات کے موقع پر متاثر اور غیر متاثرکا فرق ختم ہو چکا ہے۔ جس پر دل مہربان ہو اس پر نوازشات کرنے میں کسی بھی قسم کے اصول اور ضابطے کی پاسداری کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی۔
حالیہ سردیوں میں دو مرتبہ شدید بارشوں اور برفباری کے نتیجے میں نقصانات ہوئے۔وزیر اعظم محمد نواز شریف نے اس دوران پشاور کا دورہ کیا۔ اور متاثرین کیلئے فنڈ کا اعلان کیا۔ جس میں سے تقریبا تین کروڑ روپے چترال لوئر اور اپر میں ایسے تقسیم ہوئے۔ گویا یہ جہیز فنڈ کے طور پر دیے گئے تھے۔ اس فنڈ سے ایسے افراد بھی ہاتھ صاف کرگئے۔ جن کی دیوار کی ایک اینٹ بھی نہیں گری تھی۔ اور نہ دیوار میں دراڑ پڑ چکی تھی۔ لیکن ان پر مقامی سیاست اور ریاست مہربان تھی۔
دوسری مرتبہ کے بارشوں اور برفباری سے چترال بھر میں مزید نقصانات ہوئے۔نقصانات کا جائزہ لینے کیلئے مختف سروے ٹیمیں بنائی گئیں۔ پٹواریوں اور مانٹیرنگ ٹیموں کو لگادیا گیا۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ آج تک متاثرین کو ایک ہائی بھی نہیں ملا۔ عوام جاننا چاہتی ہے۔ کہ حکومت نے اگر متاثرین کیلئے فنڈ ریلیز کی ہے۔ تو اب تک متاثرین کو کیوں نہیں دی گئی۔ اور اگر فنڈ فراہم نہیں کی گئی ہے۔ تو کیونکر علاقے کو آفت زدہ قرار دے کر پٹواری اور مانٹرینگ ٹیمیں لگا کر سروے کئے گئے۔ جب کسی کو کچھ ملنے والا تھا ہی نہیں۔
سابقہ متاثرین کی جو فہرست اپر اور لوئر چترال کے متاثرین کے نام سے جاری ہوئے۔ اس میں بیس فیصد سے زیادہ حقیقت نہیں تھی۔ اور نہ اب صحیح معنوں میں امدادی فنڈ کے تقسیم کی توقع ہے۔ ضلعی انتظامیہ چترال کی طرف سے جو فہرست متاثرین کی مرتب کی گئی ہے۔ جاری کرے۔ تاکہ متاثرین کے اصل چہرے سامنے آسکیں۔