داد بیداد۔۔انتخا بات کا اونٹ۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Print Friendly, PDF & Email

 

بڑی سکرین پر ایک سوال بار بار نظر آرہا ہے کہ انتخا بات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ اونٹ صحرائی جا نور ہے اس کی سواری کے لئے اونٹ کا کسی ایک کروٹ بیٹھنا لا زمی ہے ورنہ سواری نہیں ہو سکتی، سوار کو اتر نے کے لئے ایک بار پھر اونٹ کو کسی نہ کسی کروٹ بٹھا نا پڑتا ہے اونٹ جس کروٹ بیٹھے سوار اُسی طرف سے سواری کر تا ہے اور اس کروٹ سے اتر تا ہے جہاں سے اونٹ گذر تا ہے وہ راستہ ہمیشہ صاف نہیں ہوتا، خطرے سے خا لی بھی نہیں ہو تا اس لئے اونٹ کے کروٹ کا خا ص خیال رکھنا پڑتا ہے شتر بان دیکھتا ہے کہ اونٹ کو کس کروٹ بٹھا نا ہے اگر شتر بان کوئی نہ ہو تو اونٹ کو ”شتربے مہار“ کہتے ہیں ایسے حا ل میں اونٹ کی مر ضی ہو تی ہے کہ وہ جہاں بیٹھے جس کروٹ بیٹھے اپنی جا ندار مخلوقات میں عجا ئبات کا ذکر کر تے ہوئے اللہ پا ک نے اونٹ کی خلقت کو عجا ئبات میں شمار کیا ہے اس لئے اردو میں ضرب المثل ہے ”اونٹ رے اونٹ تیری کونسی کل سیدھی“ ہمارے ہاں جب بھی غیر یقینی حا لات پیدا ہوتے ہیں ان حالات کے بارے میں کچھ کہنے سے پہلے یہی جملہ دہرا یا جا تا ہے ”دیکھئے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟“ اونٹ کے کروٹ کا انتظار کر تے کر تے وطن عزیز میں 2023کے عام انتخا بات 2024کے دہلیز پر پہنچ چکے ہیں ابھی انتخا بی شیڈول کا اعلا ن نہیں ہوا صرف 8فروری کی تاریخ دی گئی ہے اگر چہ انتخا بات کے انعقاد میں کوئی ابہام یا کنفیو ژن نہیں ہے تا ہم انتخا بی مہم اور انتخا بی نتائج کے بارے میں چہ میگوئیاں ختم ہونے کا نا م نہیں لیتیں اس لئے مستقبل کی جمہوری حکومت اور حزب اختلا ب کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنا بہت مشکل ہے اس مشکل کو ابہام اور کنفیو ژن کا نا م بھی دیا جا سکتا ہے تین طرح کے شکوک و شبہات پائے جا تے ہیں کہا جا تا ہے کہ تمام سیا سی جما عتوں کو برابری کی بنیاد پر آزادانہ طور پر انتخا بی مہم چلا نے کی اجا زت ہو گی یا نہیں اگر سب کو یکساں مواقع دیئے گئے تو انتخا بی دنگل کا نقشہ کیا ہو گا؟ بساط کس طرح بچھا ئی جا ئیگی؟ یہ بھی کہا جا تا ہے کہ انتخا بات کے نتا ئج پر ساری جما عتوں کو کس طرح اعتماد ہو گا؟ نتائج کے بعد کیسی حکومتیں بنینگی؟ ممبروں کی خرید و فروخت کا راستہ روکا جائے گا یا نہیں؟ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وفاق اور صو بوں میں جو نئی حکومتیں قائم ہو نگی ان کے مقا بلے میں حزب اختلا ف اسمبلی میں رہے گی یا سڑ کوں پر آئیگی؟ اگر سڑ کوں پر آگئی تو انتخا بات کا کیا فائدہ ہو گا؟ جمہوریت کا کیا مستقبل ہو گا؟ ان باتوں کے لئے ہم سب کو اونٹ کے کسی کر وٹ کا انتظار ہے، اگر اونٹ سیدھی کروٹ بیٹھتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تما م پارٹیوں کو انتخا بی مہم چلا نے کی اجا زت ہو گی سب کو یکساں مواقع ملینگے انتخا بی نتائج کو تما م جما عتیں قبول کرینگی ہار نے والی پارٹیاں جیتنے والوں کو مبارک باد کے پیغامات بھیجیں گی اور آنے والی حکومت ممبروں کی خرید و فروخت یا دھونس دھا ندلی کے بغیر خو ش اسلو بی کے ساتھ حلف اٹھائیگی حزب اختلا ف اسمبلیوں کے اندر رہے گی، سڑکوں پر خا نہ جنگی جیسی صورت حال نہیں ہو گی اور جمہوریت کی گاڑی اپنی پٹڑی پر خراماں خراماں چل پڑے گی یہ سب کے لئے خو شی کا مقام ہو گا اور یہ سب کی کا میابی ہو گی اس کے مقا بلے اگر انتخا بات کا اونٹ الٹی کروٹ بیٹھ گیا تو اس کے تما م نتائج الٹے ہونگے اللہ پا ک ملک اور قوم کو ایسے حالات سے بچائے اب یہ کہنا بے سود ہے کہ ملک نا زک دور سے گذر رہا ہے یا ملکی سلا متی کو سنگین خطرات درپیش ہیں کیونکہ یہ باتیں ہم 76سالوں سے دہرارہے ہیں ان باتوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوا کہنے کی بات یہ ہے کہ ہمیں سب سے پہلے اپنی سیا سی جما عتوں کو سنوار نا ہو گا اور جمہوریت کا پہلا سبق سب کو پڑھا نا ہو گا کہ جمہوریت میں اختلا ف رائے ہوتا ہے جا نی دشمنی نہیں ہو تی، سیا سی جدو جہد میں نظر یا ت کا ذکر ہو تا ہے، منشور کا ذکر ہو تا ہے، قوم کو مستقبل کا لائحہ عمل دیا جاتا ہے شخصیات اور ذاتیات کا ذکر نہیں ہوتا، ماضی کو کرید نے کا کام نہیں ہو تا اگر یہ سبق سیا سی جما عتوں نے یا د کر لیا تو بات آگے بڑھے گی ہمارے استاد ڈاکٹر محمد انور خان کہا کر تے تھے جمہوریت میں نظریات کی مثال گھوڑے کی ہو تی ہے شخصیات کی مثال تانگے کی ہے گھوڑے کو آگے باند ھا جا ئے تو تانگہ چل پڑے گا ورنہ کچھ نہیں بنے گا ہم گھوڑے اور تانگے کو چھوڑ کر اونٹ تک پہنچ چکے ہیں اب اونٹ کی کروٹ کا انتظار ہے۔