داد بیداد۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔اُمید اور آس
وہ لو گ خو ش نصیب تھے جن کے دور میں ذرائع ابلا غ نہیں تھے اس طرح گاوں اور محلے سے با ہر کی کوئی خبر ان کے کا نوں تک نہیں پہنچتی تھی ان کو خواہ مخواہ کا دکھ اور غم نہیں ہوتا تھا ان کو کبھی یہ غم نہیں ہوا کہ امریکہ کی ایک بڑی ریا ست میں سفید فام دہشت گرد نے 3شہریوں کو قتل کر کے خود کو بھی گو لی مار دی ان لو گوں نے کبھی یہ خبر نہیں سنی کہ ایک ہزار کلو میٹر دور کسی شہر میں شو ہر نے بیوی اور بچوں کو مو ت کے گھا ٹ اتار نے کے بعد خو د کشی کی ایسی خبریں دن رات سن کر خواہ مخواہ اور بلا وجہ آدمی رنجیدہ ہوتا ہے بقول امیر مینا ئی بر چھی چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے آج سے 200سال پہلے دنیا کے کسی بھی حصے میں ذرائع ابلا غ کی مو جودہ سہو لیات نہیں تھیں، آج سے 100سال پہلے بر صغیر پا ک و ہند میں ایسی کوئی سہو لت نہیں تھی آج سے 50سال پہلے پا کستان میں ذرائع ابلا غ بہت محدود تھے اس لئے لو گ خو ش حال تھے بلڈ پریشر، سردرد اور فالج کی بیماریاں نہیں تھیں آج بھی ایسے لو گ مو جو د ہیں جو سکون اور راحت کی تلا ش میں چند دنوں کے لئے گر مائی چراگاہوں پر جا تے ہیں جہاں 14000فٹ کی بلندی پر کوئی سگنل نہیں ہو تا باہر کی کوئی آواز نہیں آتی چنا نچہ سکون کے چند دن گذار کر خو شی اور مسرت حا صل ہو تی ہے، ذرائع ابلا غ کو پوری دنیا میں نعمت کا در جہ دیا جا تا ہے ہم ذرائع ابلا غ سے بیزار کیوں ہیں؟ اس سوال کے 101جوا ب ہو سکتے ہیں پشتو محا ورہ ”سل خبری سر یو“ کے مصداق مختصر اور جا مع جواب یہ ہے کہ دنیا بھر کے ذرائع ابلا غ نا امیدی اور خوف پھیلا نے کا دھندہ نہیں کر تے دنیا میں ذرائع ابلاغ کو اچھی خبروں کی تلا ش ہو تی ہے ہمارے ذرائع ابلا غ کو بری خبروں کی جستجورہتی ہے دنیا کے ذرائع ابلا غ اور ہمارے ذرائع ابلا غ میں یہ بنیا دی فرق ہے جو ہمیں خبروں سے بیزار کر تا ہے آپ سنگا پور اور جا پا ن کے ذرائع ابلا غ کو دو ہفتوں کے لئے دیکھتے اور سنتے رہیں دو ہفتوں میں ایک بار بھی باد شاہ، وزیر اعظم یا وزیر داخلہ کی تقریر یا خبر نہیں آئیگی کسی سیا سی پارٹی کے جلسے کی خبر یا سیاسی لیڈر کی پریس کا نفرنس کی فو ٹیچ نہیں آئیگی،ہمارے ذرائع ابلا غ میں ان کے سوا کوئی دوسری خبر ہوتی ہی نہیں سو شل میڈیا بھی ان خبروں کو آگے پھیلا تا ہے اس لئے نا امیدی اور ما یو سی پھیلتی ہے، حا لا نکہ ملک کے اندر اُمید اور آس کی بے شمار خبریں مو جو د ہو تی ہے تعلیمی اداروں کی اچھی خبریں، صحت عامہ کے شعبے میں نئے تجربات، صنعت و حر فت کے شعبے میں نئی کا میا بیاں، کھیلوں کے شعبے میں نئی پیش رفت سے متعلق خبروں کی کوئی کمی نہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ذرائع ابلا غ نے آپس میں بُری خبروں کا مقا بلہ رکھا ہوا ہے ایک معصوم بچی کے قتل کا واقعہ دس دنوں تک تسلسل کے ساتھ دکھائی جا تی ہے کسی قابل اور لائق بچی کی کوئی بری کا میا بی کبھی نہیں دکھائی جا تی ہم کوئی اچھی خبر کبھی نہیں دیکھی ایسی کوئی خبر ہم نے مثبت سر گر میوں کی کوئی خبر ہم نے نہیں پڑھی پا کستان ملٹری اکیڈ یمی کا کول ہے، پی اے ایف اکیڈیمی رسالپور ہے پا کستان نیول اکیڈیمی ہے ان کی قابل فخر سر گر میوں کو خبر کا در جہ نہیں دیا جا تا، سیا لکوٹ میں کھیلوں کا بہترین سامان بنتا ہے سر جیکل آلا ت بنتے ہیں سیالکوٹ کے تا جروں نے نجی شعبے میں اپنا ائیر پورٹ تعمیر کیا ہے ایسی مثبت سر گر می وں کی کوئی خبر نہیں بنتی، حطار انڈسٹریل اسٹیٹ ہری پور، گدون انڈسٹریل اسٹیٹ صوابی سے لیکر نوری اباد کراچی تک ہزاروں کا ر خا نوں میں بہترین مال تیار ہوتا ہے فیصل اباد اور گوجرانوالہ کو دنیا میں مانچسٹر سے تشبیہہ دی جا تی ہے مگر ہم ان کا میاب مثا لوں سے بے خبر ہیں تقریر کرنے والوں نے قوم کو 23مذہبی گروہوں اور 18قومیتوں میں تقسیم کر دیا ہے اس کے باوجود پا ک فو ج اور افسر شاہی کی انتظا می صلا حیتوں نے ملک کو مضبوط اور متحد رکھا ہے یہ اُمید اور آس کی بڑی وجہ ہے مگر ہم 200سال پہلے گزرے ہوئے لو گوں کی طرح خو ش نصیب نہیں ہمیں روزانہ نا امیدی کی طرف دھکیلا جا تا ہے۔