داد بیداد۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔اخو ند سالاک ؒ
دیر کو ہستان ایک مختصر تعارف میں محقق اور مو رخ حضرت بلال نے درد ستان میں اسلا م کی دعوت کو پھیلا نے کا ذکر کیا ہے اور اس ذکر میں حضرت اخو ند پنجو بابا کے مرید خا ص عبد لاکبر شاہ المعروف اخوند سالاک ؒ کی خد مات کا جا ئزہ لیا ہے جنہوں نے قدیم دردستان میں اسلا م کی شمع کو روشن کیا تھا ڈاکٹر احمد حسن دانی، ہو لز وارتھ، البرٹو کا کوپارڈو اور دیگر مو رخین نے دردی قبائل میں اسلا م کی دعوت کا جا ئزہ لیتے ہوئے اخوند سالاک ؒ کا نا م لیا ہے بعض مور خین نے ان کی جہا دی مہمات کا حوالہ بھی دیا ہے تا ہم حضرت بلال کا موقف یہ ہے کہ دردی قبائل نے مغلوں کے خلا ف جنگوں میں اخوند سالاک ؒ کا ساتھ دیا اور ان کی تعلیمات سے متا ثر ہو کر اسلا م قبول کیا چترال کے جنو بی علا قوں میں اسلا م کی دعوت کے حوالے سے میر زہ گل دالی شاہ کی فارسی رزمیہ نظم اب تک مخطوطے کی صورت میں محفوظ ہے اس نظم کاانگریزی تر جمہ لوک ورثہ اسلا م اباد کے ذخیرہ مخطوطات میں محفوظ ہے یہ ترجمہ میجر(ر) قاضی احمد سعید کی کا وش ہے نظم میں جنو بی چترال کے قبائل میں دعوت اسلا م کے حوالے سے اخوند سالاک ؒ کی قیا دت میں جہا دی مہم کا تفصیلی ذکر ہے اور یہ بھی بتا یا گیا ہے کہ نغر شو نا می کا لا ش جنگجو سردار کو شکست دے کر اخوند سالاک ؒ نے اسلا م کا پر چم بلند کیا نظم میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ عشریت کے ایک نو مسلم خا ندان نے دیر کوہستان جا کر اخوند سلاک ؒ کو نغر شو کے خلا ف جہا د کی دعوت دے کر جہاد میں اپنی طرف سے تعاون کی پیش کش کی اس پیش کش کے جواب میں اخوند سالاک ؒ نے جنو بی چترال کی مہم کے لئے لشکر تیا ر کیا یہ 1644ء کا واقعہ ہے تاریخ کے مختلف ما خذات کا جا ئزہ لینے کے بعد اخوند سالاک ؒ کا زما نہ 1590سے 1675تک شمار کیا گیا ہے ان کا مزار ضلع تور غر میں ہے جبکہ ان کی اولاد ما نسہرہ، سوات کوہستان اور دیر کو ہستان میں آباد ہے تذکرہ نگاروں کے مطا بق اخوند سالاک ؒ اجداد عراق سے ترک وطن کر کے آئے تھے مغل باد شا ہت کے شمال میں داریل، تانگیر اور انڈس کو ہستا ن کے دردی قبا ئل بھی ان کے ہاتھ پر بیعت کر کے مشرف بہ اسلا م ہوئے ستر ھویں صدی میں مغلوں کے خلا ف سر حدی قبا ئل کے اندر بغا وت کے شعلے بھڑ ک رہے تھے اخوند سالا ک ؒ اپنے استاد اور پیرو مرشد سید عبد الوہاب اخو ند پنجو با باؒ کی طرح مغلوں کے مخا لف تھے، اکبر پورہ سے جب وطن ما لو ف یعنی کا لا ڈھا کہ مو جو دہ تور غر واپس گئے تو دردی قبائل کو مغلوں کے خلا ف بغا وت پر اما دہ کیا اس وجہ سے ان کے پیرو کاروں کو یاغی یعنی باغی کا نا م دیا گیا اور کوہستان کی پٹی کو یا غستان کا نا م دیا گیا پرو فیسر محمد شفیع صابر کے مطا بق اخوند پنجو بابا ؒ کی وفات 1040ھ مطابق 1618ء میں ہوئی ان کے حلقہ درس سے فارغ ہو کر دین اسلا م کی تبلیغ کے لئے اطراف و اکنا ف میں پھیلے ہوئے علما ئے کرا م اور مشائخ عظام کی تعداد 300کے لگ بھگ تھی ان کے خلفاء میں اخوند سا لاک ؒ، اخوند سباک باباؒ، حضرت علی جا ن باباجی ؒ اور بوڈ اباباجی ؒ نے شہرت پا ئی ان کا سلسلہ تصوف چشتیہ صابریہ تھا تذکرہ نگا روں نے اخوند سالاک بابا ؒ کے نا م کے ساتھ کبل گرامی کا لا حقہ بھی لگا یا ہے کبل گرام بٹل مانسہرہ میں اس مقام کا نا م تھا جسے آج کل ہر وری خا کوکا نا م دیا جا تا ہے ان کے پو توں اور پڑ بو توں کو بھی کبل گرامی کے نام سے یا د کیا گیا ہے ان کا ایک پوتا اخوند جما ل کبل گرامی سوات کو ہستان میں دفن ہے ان کا پڑ پو توں اخو ند رشید کبل گرامی دیر کو ہستان میں مد فون ہے چترال میں عشریت، کلکٹک، بیوڑی دمیل اور اراندو کے قبا ئلی بزر گوں سے جو روا یات سینہ بہ سینہ چل کر مو جو دہ نسل تک پہنچی ہیں ان روایات میں اخوند سالاک ؒ کا نا م عقیدت وا حترام سے لیا جا تا ہے یہ وہی عقیدت ہے جو چترال میں شاہ اردائیل، نا صر خسرو، شاہ بریا ولی اور شاہ رضا ولی زندہ پیر کے لئے صدیوں سے مو جود ہے۔