دھڑکنوں کی زبان۔۔۔۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔۔۔۔۔۔۔ہمارا امتحانی نظام اور بچوں کا مستقبل۔۔

Print Friendly, PDF & Email

دھڑکنوں کی زبان۔۔۔۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔۔۔۔۔۔۔ہمارا امتحانی نظام اور بچوں کا مستقبل۔۔
عشاء کی نماز پڑھ کر گھر میں داخل ہوا تو میری ایف ایس سی بچی کاپی لکھنے میں مصروف تھی۔۔وہ پڑھاکو تھوڑی تھی کہ میں خوش ہوتا مجھے حیرانگی ہوئی کہ کیا تبدیلی بچی میں آگئی۔ ایک نظر دیکھا تو کاپی پریکٹیکل کی تھی اب بات سمجھ آ?ی کہ بیٹا دسویں میں امتحان دے رہا ہے کل پرسوں امتحان شروع ہو رہا ہے سا?نس کے استاذ محترم نے کہا ہوگا کہ رولنمبر لینے جب آو تو پریکٹیکل کی کاپیاں ساتھ لا? میں دستخط کروں گا۔۔مجھیرونا آیا سکول میں لیباٹری ہوگی ادھر سا?نس کے سامان ہونگے استاذ سا?نس کا مضمون پڑھاتے ہو? بچوں کو لیباٹری میں لے جا کے پریکٹکل کراتا تو بچے کچھ سمجھتے۔۔مجھے رونا آیا پشاور شہر میں ایک پرائیویٹ ادارے میں پڑھانے والے اپنے قابل طالب علم سے اس واقعے کا ذکر بڑے درد سے کیا اس نے مسکرا کر کہا سرجی شہر میں ممتحن سے پریکٹکل کی کاپی دستخط کرنے نہیں دیا جاتا۔اسی کاپی کو مہینگے داموں بازار میں بھیجا جاتا ہے یہ سلسلہ چلتا ہے یہ کاپی ک? بار بھیجا جاتا ہیاور خریدی جاتی ہے کیونکہ لکھی ہو?ی تیار کاپی ہے بچے کو تیار ملتی ہے پھر وہ کاپی لکھ لکھ کر معز کھپا?ی کیوں کرے۔۔اس نے آہ بھر کر کہا سر جی ایم فل اور پی ایچ ڈی کے تھیسس بھیجے جاتیہیں۔ پی ایچ ڈی سکالر کو پتہ نہیں ہوتا کہ میری پی ایچ ڈی کے مقالے کا موضوع کیا تھا۔میرے ملک میں علم بھیجا جاتا ہے۔ تعلیمی نظام جو اداروں کو دیا جاتا ہے اس میں سختی سے سرزنش پر پابندی ہے استاذ بچے کو ڈانٹ نہیں سکتا۔فیل نہیں کر سکتا۔مسلسل غیر حاضر ہو جا? تب بھی سکول سینکال نہیں سکتا لا?ق نالا?ق، فطین غبی ایک لاٹھی سے ہانکے جا?یں گے بچے کو امتحان کا، پاس فیل ہونے کا، سزا جزا کا کو?ی خوف نہیں ہوگا۔استاذ کو مانٹرنگ کا کو?ی خوف نہیں ہوگا۔تنخواہ نہ ملنے کا خوف نہیں ہوگا آفیسر کی سرزنش کا خوف نہیں ہوگا لے دے کے ایک ڈی سی ایم اے ہوگا جو مہینے میں ایک بار حاضری لے کے جا? گا وہ بھی پرنسپل سے کسی استاذ کے بارے میں نہیں پوچھے گا کہ کیسا استاذ ہے اگر کو?ی قابل تعریف استاذ کہیں سکول نہیں آ? گا تو اس کو غیر حاضر لگایا جا? گا۔پھر بورڈ کے امتحانات آ?یں گے۔”لکی ڈرا“ہوگا تو وہی بندے جو مسلسل ڈیوٹی کرتے آ رہے ہیں ان کا ”لک“ جاگے گا نام انہی کے نکل آ?یں گے۔ڈیوٹی خفیہ رکھا جا? گا پھر ان کی مرضی کے سٹیشنوں میں ان کی تعیناتی ہوگی۔بورڈ کا نما?ندہ اساتذہ کو ڈانٹ پلا? گا۔ڈیوٹی کے شوقین باراداریوں میں کونشیں بجا لا?یں گے جوتے درست کریں گے۔۔پھر امتحانی حال سجے گا۔۔سیر سپاٹے ہونگے۔ہفتہ خوان سجیں گے۔قوم کو نوجوانوں کی ایک کھیپ ”خام مال“ کی صورت میں مل جا? گی۔اشرافیہ اپنے بچوں کو کسی مہینگے اداروں میں بھیج?ں گے ان اداروں کے پرنسپلز بورڈ سے اپنی مرضی کے عملے تعینات کریں گے بچوں سے پیسے جمع ہونگے عملوں کی موج مستیاں ہونگی نتا?ج سارے اے ون ہونگے اداروں کی ساکھ بحال ہوگی۔یہ ہمارا حال ہے یہ ہماراتعلیمی نظام ہے یہ ہمارے بچے ہیں۔دنیا میں تین طرح کی تعلیم را?ج ہیں ایک نیچرل سا?نسس ہیں جس میں ہمارے بچوں کے تعلم کا ذکر اپنے بچے کی پریکٹکل کی کاپی کی صورت میں کیا۔یہ تعلم مشق کے زریعے ہوتی ہے بچے خود تجربہ کرکے علم حاصل کرتے ہیں پروجیکٹ ڈیزا?ن کرتے ہیں لیپ میں کام کرتے ہیں سا?نس کی دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے ہمارے سیکریٹری صاحب نے کہا اپنے لیپ آباد کرو پھر ان کا حکم دھا?ی بن گیا پھر صدا بہ صحرا ہوا۔ ایک تعلیم سوشل سا?نسس کی ہے۔یہ پڑھ کر لوگ ملک اور معاشرہ چلاتے ہیں سیاست، انسانیت اور انسانوں کے حقوق سے اگاہ ہوتے ہیں وہ بے مثال معاشرہ ترتیب دیتے ہیں ہمارے ہاں پہلی کلاس سے نقل کی صورت میں کرپشن کی پریکٹس ہوتی ہے۔بندہ سی ایس ایس کرکے بڑی پوسٹ پہ بیھٹتے ہی رشوت لینا، کام چوری کرنا،اقربا پروری کرنا شروع کردیتا ہے۔ اس کے ذہن میں کھرے سچے کا کو?ی تصور نہیں۔حق و صداقت کی تعلیم اس نے حاصل نہیں کی۔عدل و انصاف کا سبق نہیں پڑھا تب عدالت کی کرسی پہ بیٹھے گا تو کیا عدل کرے گا۔۔۔ایک مذہبی تعلیم ہے اس میں ہم نے مذہب کو صرف عبادت گاہوں میں عبادت ہی سمجھ رکھا ہے یہ تعلیم ہماری زندگی میں عملی طور پر نہیں آتی ہم اللہ رسول کا حکم اپنے اوپر لاگو نہیں کرتے نعرے بلند ہونگے۔۔مذہب کو سیاست سے جدا کرو۔۔۔۔گویا مذہب کو?ی اپشن ہے۔۔۔ طرز زندگی نہیں۔۔۔۔ نظام حیات نہیں۔۔۔یہی وجوہات ہیں کہ ہمارا معاشرہ جنگل بنتا جا رہا ہے۔۔۔۔کل سے دسویں کے امتحانات شروع ہونگے۔۔۔