دھڑکنوں کی زبان۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔۔ ”معجزہ ہی ہوا تھا“

Print Friendly, PDF & Email

دھڑکنوں کی زبان۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔۔ ”معجزہ ہی ہوا تھا“
ملک خداداد کی موجود حالت جو ہمارے ہاتھوں ہو?ی ہے دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ اس ملک کی آزادی کے وقت کیا یہ قوم تھی جس نے آزادی حاصل کی تھی یہ توآج ہر دوسرے لمحے کہتی ہے کہ”ہم نے آزادی کی جنگ لڑی اور خوب لڑی آخر کو آزادی مل گ?“۔یہ جنگ لڑنا کو?ی آسان کام نہیں بڑی جان کنی کا مرحلہ آتا ہے بڑی آزما?شیں آتی ہیں صبر کرنا پڑتا ہے برداشت کرنی پڑتی ہے قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔۔۔کیا ہم نے واقعی آزادی کی جنگ لڑی تھی۔۔کیا ہماری خودیاں صورت فولاد تھیں کیا ہم ایک دوسریکیلیے ”بریشم“ کی طرح نرم تھے کیا ہم باطل کے لیے”فولاد“تھے۔یقینا ایسا کچھ سما تھا تب اللہ نے ہمیں آزادی کی نعمت سے نوازا تھا۔اس زمانے میں ہماری زندگیاں اس طرح پر تعیش نہیں تھیں تعلیم کی بھی کمی تھی ہم میں سے گنتی کے چند لوگ باہر سے پڑھ کے آ?تھے۔۔آج کی طرح سی ایس ایس، پی ایم ایس آفیسر نہیں تھے۔۔باہر سے پڑھ کر بریسٹر نہیں تھے پی ایچ ڈی سکالر نہیں تھے۔بڑے بڑے ماہرین معاشیات نہیں تھے سیاست کی بڑی بڑی ڈگریاں ہمارے پاس نہیں تھیں۔ہم میں سے کو?ی بڑا کارخانہ دار بھی نہیں تھا۔کو?ی نامی گرامی سیاسی پارٹیاں بھی نہیں تھیں۔۔ہم سیدھے سادھے لوگ تھے۔۔ہمارے بڑوں نے ایک نعرہ لگایا کہ آزادی حاصل کریں ہم نے لبیک کہا اور اس جد وجہد میں تن من دھن کی قربانی دی۔ تب منزل مل گ? تھی کیونکہ ہم ”قوم“ تھے۔۔ایک پرخلوص، ایثار و قربانی سے پر، سچے کھرے۔۔۔خود غرضی اور لالچ سے پاک۔۔۔۔بغیر ڈگریاں والے مگر غیرت والے۔۔جیبیں خالی مگر دل غنی۔۔۔اپنی تہذیب اور قومی پہچان پر فخر اغیار کی کو?ی نقالی نہیں۔۔اب ہماری جو حالت ہے اس سے توقع نہیں کیا جاسکتا کہ ہم اپنی پہچان بنا سکیں کو?ی جد و جہد ممکن بنا سکیں کو?ی جنگ لڑ سکیں۔غالب نے کہا تھا
بازیچہ اطفال ہے دنیا میرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے
ہمارے سامنے یقینا تماشا ہو رہا ہے۔یہ پارلیمنٹ، یہ انتظامیہ، یہ عدلیہ یہ سب تماشا ہے بچوں کا کھیل۔۔ذہین اور سنجیدہ بچے بھی گھر گھروندے بڑے سلیقے سے ترتیب دیتے ہیں دیواریں مضبوط بناتے ہیں بچیاں گڑیاں خوب سجاتی ہیں اپنا سمجھتی ہیں اون(own) کرتی ہیں۔مگر ہمارے ہاں بڑوں کی سرگرمیاں بچوں کا کھیل ہیں۔یہ سیاسی کھیل بچوں کا کھیل ہے۔بس اپنا سوچو دوسرا جا? بھاڑ میں۔۔عدالتوں میں انصاف نام کی کو?ی چیز نہیں دوہرا معیار ہے جس طرح کسی سیانے نے کہا تھا کہ قانون مکھڑی کا جالا ہے زیردست پھنس جاتا ہے زبردست توڑ کے نکل جاتا ہے۔من مانیاں ہیں سیاسی حریف گالی گلوج اوردشنام طرازی پہ اتر آتے ہیں۔۔۔طعنے ہیں۔۔۔ غلیظ الفاظ و القاب ہیں۔۔۔۔کیا قوم ایسی ہوتی ہے۔کیا سیاست اسی کا نام ہے کیا اس کھیل کو حکومت کرنا کہتے ہیں۔کیا پارلیمنٹ میں بیٹھے ہو?ں کا کردار اس طرح ہوتا ہے۔کیا کو?ی پاسبان جان و مال کی حفاظت میں کسی مصلحت کا شکار ہوتا ہے۔کیا کو?ی صدر وزیراعظم خود غرض ہوسکتا ہے۔کیا کسی ڈاکٹر کو مریض کی جان سے زیادہ اپنی فیس کی فکر ہوگی کیا کسی استاد کو بچوں کے مستقبل سے کو?ی سروکار نہیں ہوگا۔یہ سب کردار ایک قوم کے لیے ستون کا کام کرتے ہیں اگر ان سب کرداروں کا معیار ایسا ہو تووہ قوم کسی محاذرا میں لڑ سکتی ہے؟۔اس قوم نے کس طرح آزادی حاصل کی تھی یہ ضرور کو?ی معجزہ ہوا ہوگا۔ اللہ ہمیں پھر ایسی صلاحیتوں سے نوازے تاکہ کو?ی معجزہ دیکھانے کے قابل ہو جا?یں۔۔۔۔
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان۔۔۔