داد بیداد۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔قرض کا دیمک
کسی ریشے کو لکڑی یا کا غذ کو دیمک لگ جا ئے تو اسے ختم کر کے رکھ دیتا ہے قرض بھی دیمک ہے جو انسان کو لگے یا ملک کو لگے تو اُسے کبھی اُٹھنے نہیں دیتا ہمارے اردو اور انگریزی اخبارات کی فائلیں گوا ہی دیتی ہیں کہ حکومتوں نے کسی بیرونی ملک یا ادارے سے قرض ما نگا اور قرض ملنے پر خوشی منا ئی قرض ملنے کو حکومت کی کا میا ب پا لیسیوں کا نتیجہ قرار دیا اور اس پرا رائے دیدی کہ قرض کا ملنا پا کستان کی مو جو دہ قیاد ت پر عا لمی برادری کے اعتما د کا ثبوت ہے بعض دفعہ ایسا بھی ہوا کہ ہمارے حکمران طبقے نے قرض کو پیکیج کا نا م دیا قوم کو خوش خبری سنا ئی کہ پیکیج ملا ہے آپ اس کو جو نا م بھی دیدیں قرض ایک دیمک ہے جو کسی بھی صورت میں فائدہ مند نہیں ہے ایک زما نہ تھا ہمارے دیہات اور شہروں میں بیگا ر کیمپ ہوا کر تے تھے اب بھی خا ل خا ل نظر آتے ہیں بیگار کیمپوں میں لو گوں کو سو دی قرض دیکر ان پر سود چڑھا کر عمر بھر ان سے بیگار لیا جا تا تھا اگر کوئی شخص اس کیمپ سے خود کو یا اپنے کنبے کو نکا لنا چاہتا تو اس شخص سے کہا جا تا ہے کہ قرض ادا کر و اور آزاد ہو جا ؤ، قرض ہر سال بڑھتا جا تا تھا اور آزاد ہو نے کی اُمید سال بہ سال دم توڑ جا تی تھی بھٹہ خشت کے مزدور وں اور دوسروں کی جا گیر وں پر کا م کر نے والے کنبوں کی یہ حا لت ہو تی تھی کہ اپنی روز مرہ ضروریات کے لئے قرض لیتے تھے سال بھر کی مزدوری قرض اور اس کا سود ادا کرنے کے لئے کا فی نہیں ہو تی تھی نئے سال کے لئے مزید قرض لینا پڑتا تھا مزید قرض پر مزید سود چڑھتا تھا اور مزدور کا گردن قرض کی اس زنجیر سے کبھی آزاد نہیں ہوتا تھا یہ سلسلہ اب بھی رکا نہیں ہے بلکہ چل رہا ہے بلکہ ہماری قوم کا روگ بن چکا ہے علا مہ اقبال نے کہا تھا ”قرض ایک کا لاکھو ں کے لئے مر گ مفا جا ت“با لکل ایسی ہی صورت حا ل ہے پرسوں ایک دانشور افغا نستا ن کی مو جو دہ حا لت کے ساتھ پا کستان کے حا لا ت حا ضرہ کا تقا بلی جا ئزہ لے رہا تھا اُس نے دو باتوں کی طرف اشارہ کیا اُس نے کہا افغا نستان پر فروری 2023میں کوئی قرضہ نہیں ہے اُس کے 10ارب ڈالر امریکی بینکوں میں اما نت رکھے ہوئے ہیں کا بل میں تیل اور آٹا پا کستان سے سستا ہے ہماری صورت حا ل یہ ہے کہ فروری 2023میں 126345میلین ڈالر بیرونی قرضہ ہے 1000میلین ڈالر کا قرضہ مزید آنے والا ہے گویا مارچ اپریل تک قرض کا بو جھ 136345میلین ہو جا ئے گا تیل، گیس، آٹا، بجلی اور دیگر ضروریات زندگی مزید مہنگی ہو جائینگی اور یہ سب کچھ اس وجہ سے ہو گا کہ پا کستان بیرونی قرضوں کے جا ل میں پھنسا ہو املک ہے قرض دینے والے مما لک اور قرض دینے والے اداروں یا بینکوں کی دلچسپی اس بات میں ہو تی ہے کہ قرض لینے والوں کی تعداد زیا دہ سے زیا دہ ہو تا کہ ان کا سود زیا دہ سے زیا دہ ہو کے ہاتھ آئے قرض لینے والا ملک سمجھتا ہے کہ دینے والا میرا ہمدرد اور دوست ہے حا لا نکہ معا ملہ اس کے بر عکس ہو تا ہے قرض دینے والا دوست اور ہمدرد ہر گز نہیں ہو تا وہ منا فع کما نے کے لئے قرض دیتا ہے اور قرض لینے والے کا خون چوستا ہے جیسا کہ علا مہ اقبال نے کہا ”پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم مساوات“ یہ ایک دلدل کی ما نند ہے جس میں پا وں ایک بار پھنس جا ئے تو دلدل سے نکلنا مشکل ہو جاتا ہے کئی افریقی اور ایشیا ئی مما لک ما ضی قریب میں اس دلدل میں پھنس چکے ہیں برا در اسلا می ملک مصر بھی ان میں شا مل ہے یو رپ اور براعظم امریکا کے بعض مما لک نے قرض کی دلدل سے نکلنے کے لئے اپنے قدرتی وسائل کا استعمال کیا، معدنیات کے کا نوں سے فائدہ اٹھا یا تیل اور گیس کے ذخا ئر سے فائدہ اٹھا یا بند ر گا ہوں سے کا م لیا اور قومی خزانے کو بیرونی قرضوں کے بو جھ سے آزاد کیا پا کستان کے پا س قدرتی وسائل کی کمی نہیں ملک میں سر ما یہ دار بھی مو جو د ہیں جو سر کا ری زمین، معدنیات، گیس اور تیل کے ذخا ئر، واپڈا، ریلوے، سٹیل ملز جیسے ادارے خرید کر پا کستا ن کا بیرو نی قرضہ سود کے ساتھ ایک ہی سال میں اتار سکتے ہیں صرف عزم، شفا فیت اور دیا نت داری کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے ورنہ ملک اور قوم کودیمک کھا نے کا خطرہ ہے۔