چترال (نما یندہ چترال میل) ضلع ناظم چترال مغفرت شاہ نے ضلع چترال میں پولیس کی تین سرکلوں، چھ پولیس اسٹیشنوں اور تین پولیس چوکیوں کی بیک منظوری پر سبکدوش ہونے والے انسپکٹر جنرل پولیس خیبر پختونخوا ناصر خان درانی، ریجنل پولیس افیسر ملاکنڈ اخترحیات خان گنڈاپور اور ڈسٹرکٹ پولیس افیسر سیدعلی اکبرشاہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اسے چترال کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس پیمانے پر کام کسی وزیر اعلیٰ کے آبائی ضلع میں ہی ہوسکتا ہے لیکن چترال کی ضرورت کے پیش نظر پولیس افسران نے اس علاقے پر خصوصی کرم کردیا۔ جمعہ کے روزاپنے دفتر میں متعدد ممبران ضلع کونسل غلام مصطفی، رحمت ولی، ویلج ناظمین سجا د احمد خان،ممبر تحصیل کونسل جمال الدین اور دوسروں کی معیت میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ مختلف علاقوں کے دورے میں عوام کی طرف سے پولیس تھانوں اور چوکیوں کی قیام کے مطالبے پر ضلع کونسل نے گزشتہ دنوں ایک متفقہ قرار داد کے ذریعے ضلعے میں پولیس سرکلوں، تھانوں اور چوکیوں کی تعداد میں اضافے کا مطالبہ کیا تھا جس پر سابق آئی۔جی۔ پی ناصر درانی نے سوات میں اپنے اعزاز میں دئیے گئے الوداعی تقریب کے موقع پر اس مطالبے کو پورا کرنے کا وعدہ کیا تھا جسے انہوں نے عملی شکل دے دیتے ہوئے تین پولیس سرکلوں بمبوریت، لوٹ کوہ اور موڑکھو کے ساتھ عشریت، رمبور، ارکاری، اویر، ہرچین لاسپور اور یارخون لشٹ میں تھانوں کی منظوری دے کر چترالی عوام کا دل جیت لیا۔ ضلع ناظم نے کہاکہ چترال پولیس کی تاریخ میں یہ ایک ناقابل فراموش اور غیر معمولی دن تھا جب سی۔ پی۔ او پشاور میں پولیس کے اعلیٰ حکام نے یہ منظوری دے دی جوکہ علاقے میں مربوط ترقی کا باعث بنے گا۔ انہوں نے ضلع حکومت کی طرف سے اپنی اے ڈی پی سے پولیس کے لئے مطلوبہ انفراسٹرکچر کی فراہمی میں ہر ممکن مدد دینے اور چترال پولیس کو ایک ماڈل پولیس بنانے کے سلسلے میں بھی اپنی خدمات پیش کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہاکہ صوبے کا سب سے بڑا ضلع ہونے کی وجہ سے عوام کو تھانوں تک رسائی میں اور پولیس کو گاؤں تک رسائی میں مشکلات درپیش تھا جس کا ایک مثال یارخون لشٹ ہے جہاں سے ایک سو کلومیٹر کاسفر طے کرکے عوام کو مستوج تھانے میں آنا پڑتا تھا۔ انہوں نے کہاکہ وہ نئے تھانوں میں تعیناتی کے لئے پولیس فورس میں بھی مناسب اضافہ کرنے کے لئے ضلعی حکومت کی طرف سے کوشش کرنے کی یقین دہانی کرتے ہوئے کہاکہ پولیس کی موجودہ تعداد کو تین ہزار تک بڑہادیا جائے گا جس سے علاقے میں تعلیم یافتہ جوانوں کو روزگار کے مواقع بھی میسر ہوں گے۔