داد بیداد۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔حقائق اور شتر مُرغ
شتر مرغ کے بارے میں مشہور ہے کہ دشمن کو آتے ہوئے دیکھ کر وہ اپنا سر نیچے کر کے ریت میں چھپا دیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں دشمن سے محفوظ ہو گیا وطن عزیز پا کستان کو مشرق اور مغرب، دونوں اطرف سے دشمن کا سامنا ہے ہمارا اجتما عی قومی رویہ شتر مر غ والا ہے ملک کی اہم سیا سی جما عتیں مر کز اور صو بوں میں حکومت کر رہی ہیں عوامی نیشنل پارٹی اور جما عت اسلا می حزب اختلا ف میں ہیں اے این پی نے پا کستان ڈیمو کریٹک الا ئنس میں شمو لیت اختیار کی تھی لیکن خو ش قسمتی یا بہتر منصو بہ بندی کی وجہ سے حکومت میں حصہ نہیں لیا یوں بڑی بد نا می سے بچ گئی ملک کے اندر 82فیصد لو گ غر بت کی لکیر سے نیچے زند گی گزار رہے ہیں تھے ہو ش ربا مہنگا ئی کی وجہ سے ان کے بچے بھو کے سوتے ہین کسی زما نے میں اریٹریا اور صو ما لیہ کو اس نو عیت کی قحط کا سامنا ہواتھا، سکول، کا لج، یو نیورسٹی سے لیکر دفتر اور ہسپتال تک ہر جگہ ویرا نی اور بر بادی نظر آرہی ہے لیکن یہ ما یو سی حکمر انوں کو نظر نہیں آرہی دوسری طرف مشرق اور مغرب کی طرف دونوں سر حدات پر دشمن تیار کھڑا ہے ہماری سیا سی جما عتوں کو اس کا پتہ ہے مگر ان کے کانوں پر جو ں تک نہیں رینگتی اندرونی اور بیرونی خطرات سے با لکل بے خبر ہو کر سیا سی جما عتیں آپس میں خا ندا نی دشمنی اور جا نی رقابت کے انتقام میں لگی ہوئی ہیں با لکل شتر مر غ والی صورت حال ہے ایک ہفتے کے اخبارات کا جا ئزہ لے لیں، الیکٹرا نک اور سوشل میڈیا پر ایک نظر دوڑا ئیں تو عوام کو دشمن کی طرف سے پھیلا یا ہوا جال صاف نظر آرہا ہے عوام کو یہ بھی نظر آرہا ہے کہ مشرقی سر حد پر دشمن اپنی ور دی کے ساتھ چو کس ہے مغر بی سر حد پر دشمن کی فو ج سول کپڑوں میں یلغار کر رہی ہے دہشت گردوں کے حملے ہور ہے ہیں، سیکیورٹی فور سز اور پو لیس کے جوان اپنی جا نوں کے نذرا نے پیش کر رہے ہیں عوام کو سب کچھ نظر آرہا ہے حکومت کو کچھ بھی نظر نہیں آرہا ہے یہاں تک کہ حکومت کو معا شی بد حالی، سٹاک ایکسچینج کی بر بادی، زرمبا دلہ کے ذخا ئر کا خا تمہ اور دیوالیہ ہونے کا خطرہ بھی نظرنہیں آرہا یہی وجہ ہے کہ وفاق میں 9محکموں کے لئے 75وزیر رکھے گئے ہیں جنکا ما ہا نہ خر چہ 52ارب روپے بتا یا جا رہا ہے یہی حال صو بائی حکومتوں کا ہے ایک طرف ما لی بحران ہے توانا ئی کا بحران ہے دوسری طرف حکمرا نوں کی عیا شیوں میں روز بروز اضا فہ ہورہا ہے سیا ست دان آپس میں جا نی دشمن بن چکے ہیں ایک دوسرے سے بات کرنا گوارا نہیں کر تے قوم اور ملک کی فکر کسی کونہیں ہے ستر ھویں صدی میں فرانسیسی سیا ح ڈاکٹر بر نئیر ہندوستان آیا اور لمبا عرصہ یہاں گذارا سفر نا مہ بھی انہوں نے لکھا، جو فرانسیسی سے انگریزی میں تر جمہ ہوا ہے انہوں نے 1660ء میں ہندوستان کے مسلما ن حکمرانوں کا جو حال سفر نا مے کے اندر لکھا ہے اس کی ہر بات آج کے حکمرا نوں پر صادق آتی ہے فرانسیسی سیا ح لکھتا ہے کہ حکمرا ن عیا ش ہیں، غریب فاقہ کشی پر مجبور ہیں، صو بوں میں جو صو بیدار مقرر ہیں وہ عیا شی میں باد شاہ سے کم نہیں دفتروں میں رشوت کے بغیر کوئی کا م نہیں ہوتا شاہی در باروں میں خوشا مد کا دستور ہے اس وجہ سے لو گ جھو ٹ بولتے ہیں حکمرانوں کی جھو ٹی تعریفیں کر تے ہیں اور حکمر انوں کو آپس میں لڑا تے ہیں بر نئیر لکھتا ہے یہ لو گ جھو ٹی خوشا مد کے اتنے عادی ہیں کہ بیمار ہوکر جب میرے پا س علا ج کے لئے آتے ہیں تو پہلے میری جھو ٹی تعریف میں لمبی گفتگو کر تے ہیں اس کے بعد اپنی بیماری کا ذکر کر تے ہیں 2022ء میں ہمارے حکمرا نوں اور ان کے در باریوں کا وہی حال ہے جو 1660ء میں ڈاکٹر بر نئیر نے لکھا تھا ہندوستا ن میں مسلما نوں کی حکومت کا زوال اُسی دور میں شروع ہوا تھا آج ہمارے ارد گرد مسائل کا انبار لگا ہوا ہے، ہمارے بادشاہوں کو ان مسائل کا کوئی احساس نہیں جھوٹ، خوشامد، عیا شی اور بد دیا نتی عروج پر ہے ہماری حالت شتر مرغ سے مختلف نہیں۔