داد بیداد۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔کھوار اور کھو
نا مور محقق اور سکا لر علی اکبر قاضی بار بار یہ سوال اٹھا تے ہیں کہ کھوار زبان کا نا م تبدیل ہونا چا ہئیے کھو نا م کا جو کثیر النسل قبیلہ ہے اس کا نا م بھی تبدیل ہونا چاہئیے علم کی بنیاد سوال ہے افلا طون اور کنفیو شس نے سوالات کے ذریعے علم پھیلا یا ہمارے پڑوس میں علا مہ نصیر الدین ہنزائی نے بھی کئی سوالات اٹھا ئے تاہم سوالات کے ذریعے مسلّمات کو نہیں چھیڑا جا سکتا کھوار زبان اور کھو نا م کا کثیر النسل قبیلہ گذشتہ 3ہزار سالوں میں مسلّمات کی فہرست میں داخل ہو چکا ہے، چوتھی صدی قبل از مسیح میں سکندر اعظم کے وقائع نویس ہیرو ڈوٹس نے کنڑ کی وادی میں دریائے چترال کو عبور کر نے کا واقعہ بیاں کر تے وقت اس دریا کے لئے ”کھو اسپس“ کا نا م استعمال کیا جسے اردو میں دریے کھو لکھا جا ئے گا آٹھویں صدی عیسوی میں چین کی تانگ سلطنت کی تاریخ کے اندر کا ؤ سین کی مہمات کا ذکر کر کے چترال کو چووی اور ”کھو“ کو کھیو ی لکھا گیا ہے یہ نا م سنسکرت سے آیا ہے اور اس کے معنی ہیں الگ تھلگ جب پشاچہ قبیلہ بکھر گیا اور آرنیہ نا م کی زبان پشا چہ کے ساتھ معدومیت سے دو چار ہوئی تو کھو اور کھوار کے دو نا م مشہور ہوئے انسا ئیکلو پیڈیا آف اسلا م میں کھوار کے زیر عنوان بزمی انصاری نے اس پر تفصیلی بحث کیا ہے اسی طرح انسائیکلو پیڈیا بر یٹینیکامیں اس پر روشنی ڈالی گئی ہے یہ اب علمی ورثہ بن چکا ہے اس کی معیار بندی (Standardisation) ہو چکی ہے پا کستان کی دیگر زبا نوں کی طرح کھوار پر بھی اولین تحقیق گریر سن نے کی ہے ان کی کتاب لنیگو سٹک سروے آف انڈیا پہلی بار 1915میں شائع ہوئی انہوں نے لیٹنراور اوبریان کی پیروی کر تے ہوئے کھوار کو ہند آریائی زبا نوں میں در دی شاخ کے اندر شا مل کر کے شینا، کلا شہ اور دیگر در دی زبا نوں کے ساتھ اس کی در جہ بندی کی مورگن سٹیرنے کو بھی کھوار کو شما لی ہند اور افغا نستا ن کی زبانوں کے ساتھ اپنی تحقیق کا مو ضوع بنا نا پڑا ان کی کتاب 1929میں شائع ہوئی اوسلو یو نیورسٹی ناروے، ہائیڈل برگ یو نیورسٹی جر منی اور میو نخ یو نیورسٹی جر منی میں جنو بی ایشیا پر تحقیق کے جو ادارے قائم ہوئے ان میں بھی کھوار پر کا م ہوا یہ تما م علمی ورثہ اب ورلڈوائڈ ویب پر دستیاب ہے آج اگر ہم میں سے کسی کو کھوار یا کھو کا نا م بدلنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو اس علمی ورثے کو کسطرح تبدیل کیا جا ئے گا؟ کھوار کے نامور ادیب گل نواز خا کی نے جمہوراسلا م کے بیک ٹائیٹل پر ”کوہ وار“ لکھنے کا تجربہ کیا تو ڈاکٹر طارق رحمن، ڈاکٹر عظیم شاہ خیال بخاری اور پرو فیسر اورنگ زیب شاہ نے سوال کیا کہ کیا کوہ وار کوئی نئی زبان آگئی ہے؟ اس سوال کا جواب نفی میں تھا اس لئے سٹینڈرڈ سپلینگ کھوار کی طرف واپس رجو ع کرنا پڑا گل نواز خا کی کا غم بھی یہی تھا کہ انجا ن لو گ کھوار کو انگریزی میں Khowarلکھا ہوا دیکھ کر خوار پڑھتے ہیں اس کا جواب دیتے ہوئے جمہور اسلا م نے نگران عنا یت اللہ ریا ض نے کہا کہ کھر پنجاب کا ایک قبیلہ ہے اگر کسی اجنبی نے انگریزی حروف میں Kharکو خر پڑھ لیا تو کیا یہ قبیلہ اپنا نا م بدل دے گا؟ جواب ایک بار پھر نفی میں تھا زمینی اور زما نی حقیقت یہ ہے کہ قبائیل اور زبانوں کے نا م سینکڑوں، ہزار وں برسوں کے معاشرتی عوامل کے نتیجے میں وجودپا تے ہیں یہ روایتی علم کا حصہ ہے اس علم کو ٹریڈیشنل نا لج کے نا م سے کینڈا میں با قاعدہ ڈسپلن کا در جہ دیا گیا ہے اس لئے کھوار اور کھو کے بارے میں بھی روایتی علم کو ماننا پڑے گا اکیسویں صدی میں جدید علوم کا سہا را لیکر ہم نے اگر تور کھو، موڑ کھو اور لو ٹکوہ کے برسوں پرانے نا م تبدیل کئے تو یہ مُضحکہ خیز بات ہو گی ایسی بے شمار کہا نیاں ہیں جو سینہ بہ سینہ آنے والی روایات کے ذریعے ہم تک پہنچی ہیں شاہ بریا ولی اور نا صر خسرو کے بارے میں جو علم ہمیں حا صل ہے وہ بھی روایتی علم کا حصہ ہے اگر جدید یت سے متا ثر ہو نے والے اس علم سے انکار کر ینگے تو ان کا انکار ہمیں ہر گز قبول نہ ہو گا اپنی کم علمی اور کو تا ہ فہمی کا اعتراف کر تے ہوئے مجھے یہ کہنے دیجئیے کہ بڑے دانشور وں کو ایسے سوالات نہ اُٹھا نے چا ہیں جو علمی مسلمات کے خلا ف ہوں بلکہ ایسے سوالات اٹھا نے چاہئیں جو مسلمات کی روشنی میں تحقیق کے نئے زاویے سامنے لا نے کا باعث بن سکیں اس پر دیوان حا فظ سے فال نکا لاتو یہ جوا ب آیا ؎
در کوئے نیکنا می مارا گذر ندادند
گر تو نمی پسندی تغیر کن قضا را