داد بیداد ۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔سائنسی تعلیم اور تجربہ گاہ
خیبر پختونخوا کی حکومت نے سکول کی سطح پر حیا تیات، کیمیا اور طبیعات کی تعلیم کے لئے پرائمیری سے میٹر ک تک در جہ بہ در جہ تجربہ گا ہوں کے انتظا مات وانصرام اور طلبا، طا لبات کو کسی عنوان کا تجربہ کرواکر پھر اس عنوان کا سبق پڑ ھا نے کی نئی حکمت عملی شروع کرنے کا منصو بہ پیش کیاہے اضلا ع کی سطح سے افیسران تعلیم کو بلا کر تفصیلی بریفنگ دی گئی ہے، مو جود ہ تعلیمی سال سے اس منصو بے کا آغا ز ہو گا ہا ئی سکولوں کی لیبارٹریوں کو منظم کیا جا ئے گا، مڈل اور پرائمیری سکو لوں کے لئے چھوٹے پیما نے کی لیبارٹریاں منظور کی جا ئینگی اسا تذہ کی کمی محسوس کی گئی تو اس کمی کو پورا کیا جا ئے گا اس منصو بے کے نما یاں خد و خا ل محکمہ ابتدا ئی و ثا نوی تعلیم کے حا کم مجا ز کی طرف سو شل میڈیا پر رو ز نا مچہ کی صورت میں منکشف کئے گئے ہیں اور منصو بے کی تفصیلا ت جا ن کر ایسا گماں ہوتا ہے کہ آئیندہ ہمارے سر کار ی سکول بھی ملک کے نما یاں نجی سکو لوں کے طرز کو اپنا ئینگے یہاں سوال پیدا ہو تا ہے کہ ہمارے سر کاری سکولوں میں کیا خرا بی تھی؟ جواب یہ ہے کہ سائنس کے نظر یات کو بھی اردو، اسلا میات اور مطا لعہ پا کستان کی طرح رٹہ لگوار کر پڑھا یا جا تا تھا طا لب علم کو بو علی سینا کی تاریخ پیدا ئش یا د ہو تی تھی، تھر ما میٹر کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ہوتا تھا دوسری خرا بی یہ تھی کہ کمرہ جما عت میں یکطر فہ پڑھا ئی ہو تی تھی استاد پڑھا تا تھا، طلباء سنتے تھے اور بس، سوال پو چھنے اور بحث کرنے کی گنجا ئش نہیں ہو تی تھی کیونکہ استاد کو کتا ب ختم کرنا ہوتا تھا کتا ب ختم کر نے کے چکر میں تجربہ گاہ کھو لنے اور عملی تجربہ کر انے کا وقت نہیں ملتا تھا اگر کسی سکول میں جبرو زبر دستی کیساتھ تجربے کر وا ئے جا تے تھے تو وہ بھی کو رس ختم ہو نے کے بعد چند دنوں کے لئے ہو تے تھے پریکٹیکل کی کا پیاں امتحا ن سے دو دن پہلے خرید ی جا تی تھیں امتحا ن کے دن سب کے ہا تھوں میں نئی کا پیاں ہو تی تھیں اس کے مقا بلے میں اعلیٰ در جے والے نجی سکولوں میں ہر سبق کا پریکٹیکل پہلے کرا یا جا تا ہے، سبق پریکٹیکل کے بعد پڑھا یا جا تا ہے امتحا ن کے مر حلے میں بھی پہلے پریکٹیکل کا امتحا ن ہو تا ہے اس کے نمبر سر بمہر ہو نے کے بعد سبق کا امتحا ن لیا جا تا ہے ٹا ئم ٹیبل میں لیبارٹری اور لا ئبریری کا گھنٹہ دکھا یا جا تا ہے جس پر پوری طرح عمل ہو تا ہے سکول میں ہر روز دو گھنٹے یا تین گھنٹے اضا فی رکھ کر کورس پڑھا ئے جا تے ہیں 2بجے کی جگہ 4بجے یا 5بجے تک پر نسپل اور اسا تذہ بیٹھ کر طلبا ء، طا لبات کی رہنما ئی کر تے ہیں گلگت بلتستان اور چترا ل کے آغا خان ایجو کیشن سروس کی سر پرستی میں چلنے والے ہر سکول میں اس پر عمل ہو رہا ہے اور یہ مشکل نہیں صو با ئی حکومت نے سر کا ری سکو لوں کو بھی معیا ری تعلیمی ادارہ بنا نے کے لئے نئے منصو بے کا عندیہ دیا ہے اور یہ حکومت کی ان کو ششوں کا تسلسل ہے جن کے تحت این ٹی ایس کے ذریعے اسا تذہ بھر تی ہو ئے، ما نیٹرنگ سسٹم کے ذریعے اسا تذہ کو حا ضری کا پا بند کیا گیا، ڈبل شفٹ کے نا م سے سکو لوں کو اپ گریڈ کیا گیا، سکو ل لیڈر ز کے ذریعے اسا تذہ کے کام میں مدد دی جا رہی ہے نئے منصو بے میں ہیڈ ما سٹر اور پرنسپل کو پا بند کیا جا رہا ہے کہ وہ دفتر میں بیٹھنے کی جگہ تدریسی، نصا بی اور ہم نصا بی سر گر میوں میں طلباء و طا لبات اور اساتذہ کے ساتھ شریک ہو نے کے لئے روزانہ کم ازکم چار گھنٹے کلا سوں میں گذاریں، ایجو کیشن افیسر وں کو اس بات کا پا بند کیا جا رہا ہے کہ وہ مہینے میں ایک بار ہر ما تحت سکول کا اچا نک معا ئنہ کر کے رپورٹ بھیجدیں یہ وہ کام ہیں جو سوات اور چترال کے ریا ستی سکولوں میں با قاعدگی کے ساتھ ہو تے تھے نیا منصو بہ اگر روبہ عمل آیا تو صو بے کے سر کا ری سکول معیار کے لحا ظ سے اعلیٰ در جے کے نجی سکو لوں سے آگے نکل جا ئینگے۔