داد بیداد۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔۔پشاور کا تانگہ
ہم لو ک ورثہ کے عجا ئب گھر سے باہر آکر شکر پڑیاں کی بڑی شا ہراہ پر آگئے تو دوستوں کا پہلا سوال یہ تھا کہ عجا ئب گھر کے باہر پشاور کا تا نگہ کس لئے رکھا گیا ہے؟ ہم نے کہا کہ بر صغیر کی تاریخ میں لا ہور کے تانگے کی اہمیت ہے تو پشاور کے گھوڑے کی دھوم ہے دونوں کو ملائیں تو پشاور تانگہ بن جا تا ہے یہ ہماری ثقا فت کی بچی کھچی نشا نیوں میں شمار ہوتا ہے اس لئے عجا ئب گھر کے لا ن میں فیصل اباد کی لاری کے مقا بلے میں رکھا گیا ہے، میں جب بھی تانگہ دیکھتا ہو یا تانگے والی فلم یا تانگے کی تصویر دیکھتا ہوں تو مجھے پشاور کے وہ مشہور مقا مات یا د آتے ہیں جہاں بیسیوں تانگے صبح شام سواریوں کے انتظا ر میں کھڑے رہتے تھے سامنے والا تانگہ اپنی باری پر سواریاں لیکر روانہ ہو جا تا تو فوراً پیچھے سے دوسرا تانگہ آکر اس کی جگہ لے لیتا تانگہ سٹینڈ پر ”باری“ کا بڑا خیال رکھا جا تا تھا کوئی کوچوان باری کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا تھا ہشتنگری، گنج، یکہ توت، کا بلی، کچہری اور اساما ئی دروازوں کے باہر تانگوں کے سٹینڈ ہوا کر تے تھے صدر کے سٹیڈیم چوک میں ایک سٹینڈ تھا، نو تھیہ، لا لکڑتی اور ڈبگری میں تانگوں کے سٹینڈ تھے، بھا نہ ماڑی، فردوس چوک اور چر گانو چوک کے تانگہ سٹینڈ سب کو یا د ہیں، ہمارے ایک بزرگ ہر سال چترال سے مزار شریف کا سفر کر تے، ان کا نام کپتان میر گلاب شاہ تھا مزار شریف کے سفر پر جا تے ہوئے پشاور آتے تو یہاں کے تانگوں پر دوستوں، عزیزوں کو ملنے جا تے جس کو چوان کا گھوڑا خوب صورت، تنو مند اور چاق و چوبند ہو تا اس کو چوان کو کرایے کے علا وہ دس روپے انعام دیتے یاد رہے 1972ء میں تانگے کا کرایہ تین روپے ہوتا تھا کا بلی سے صدر کے لئے 6سواریاں بٹھا کر ہر سواری سے آٹھ آنے کرایہ لینے کا دستور تھا دہلی مسلم ہوٹل میں 3روپے کا اور طارق ہو ٹل میں 2روپے کا اچھا کھا نا مل جا تا تھا پشاور کے کوچوان اپنی و ضعداری میں مشہور تھے بڑی شاہراہوں پر سرپٹ گھوڑے دوڑاتے ہوئے چا بک لہرا تے اور ساتھ گا تے جا تے، لار شہ پیخور تہ قمیص تور ما لہ راوڑہ، ان کا پسندیدہ نغمہ تھا بعض من چلے کو چوان بنتے تو ”نن پہ دے حجرہ کی“ والا راگ الا پتے، بعض احمد خا ن ٹپے اور بعض فلمی گیت تانگہ لا ہوری میرا، گھوڑا پشوری میرا بیٹھو میاں جی بیٹھو لا لا! میں ہوں البیلا تانگے والا کی تان بکھیر تے اس طرح آٹھ آنے کی سواری کو لائیو موسیقی کا لطف آتا تھا ایک دن ہشتنگری کے بزرگ کوچوان نے دوران سفر ہمیں بتا یا کہ اس کے باپ دادا بھی کوچوان تھے، انگریزوں کے آنے سے پہلے نو شہر ہ، مر دان، اور چارسدہ سے لو گ تانگے پر پشاور آتے تھے خواتین کے اپنے تانگے ہوتے تھے عام لو گ کرایے کے تانگوں میں سفر کر تے تھے پردہ دار اور روپوش مستورات کے لئے تانگے کو دونوں اطراف سے پر دے لگا کر باشرع کیا جاتاتھا تانگے میں خواتین ایسی بیٹھتی تھیں جیسی گھروں کے اندر پردے میں ہوتی ہیں تانگے کی سواری کا اپنا مزہ تھا میری عمر کے پشوریوں نے تانگے کے عروج کا زما نہ بھی پا یاپھر تانگے کو زوال آنا شروع ہوا، عرب دنیا میں تیل دریا فت ہوا جر منی اور جا پا ن سے گاڑیاں آگئیں لو گوں کے پاس بے تحا شا پیسہ آیا، تانگے کی جگہ جی ٹی ایس نے لے لی، پہلے ڈبل ڈیکر بس آگئی پھر اومنی بسیں آئیں، پھر ویگن، فلا ئنگ کو چ اور دوسری بسیں آنے لگیں، مو ٹروں کی بھر مار ہو گئی، آٹو رکشہ آیا، اور اب بی آر ٹی نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا ترقی اللہ پا ک کی نعمت ہے مگر یہ نعمت ہمیں باپ دادا کے ورثے اور پُر کھوں کی ثقا فت سے دور کر دیتی ہے آج پشاور کا باسی اپنے پو تے یا نوا سے کو اگر بتائے کہ یکہ توت سے تانگے پر سوار ہو کر صدر جا تا تھا اور آٹھ آنہ کرایہ دیتا تھا تو نئی نسل کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئے گی تا ہم یہ پشاور کی قدیم ثقافت تھی آج گوگل استاد کو دوڑائیں پشاور کے نقشے میں ایک بھی تانکہ سٹینڈ نظر نہیں آتا۔