داد بیداد۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔چائے کی لت
ایک رپورٹ کے مطا بق پا کستانی قوم ہر سال 120ارب روپے کی چائے پی جا تی ہے اگر صوبہ خیبر پختونخوا کے ہزارہ ڈویژن میں 6مقا مات پرچائے کے باغات لگا ئے جا ئیں تو اگلے 10سالوں میں ہم 59ارب روپے کی در آمد ی چائے کی جگہ اپنی چائے اگا سکتے ہیں اس وقت شنکیا ری کے مقا م پرچائے کی کا شت بھی ہو رہی ہے اور چائے کی کا شت کے حوالے سے تحقیقی مر کز بھی کا م کر رہا ہے اس مر کز نے شنکیا ری، بلا کوٹ، بٹل، جیبوڑی، آلا تی، بٹگرام میں چائے کی کاشت کے لئے ایک لا کھ 58ہزار ایکڑ زمین کو مو زوں قرار دیاہے اس کی ممکنہ کاشت کے لئے ابتدائی رپورٹ تیار کر لی ہے اور اس اہم پرا جیکٹ پر کا م ہو رہا ہے آج کل چائے کو حکومتی حلقوں نے یہ کہہ کر زیر بحث لا یا ہے کہ کفا یت شعاری کے تحت چائے آدھی پیا لی پیا کرو، ہمارے دوست کہتے ہیں کہ حکومتی حلقے اپنے ائیر کنڈیشنڈ کمروں کی ٹھنڈک میں کمی نہیں کر تے اپنی گاڑیوں کے تیل میں بچت کا نہیں سوچتے ہم غریبوں کی ایک پیا لی چائے کو قومی خزانے پر بوجھ سمجھتے ہیں ہمارے ایک کرم فرما نے مر زا غا لب کے مصرعے میں تخریف کر کے لکھ دیا ہے ”چائے سے غرض نشاط ہے کس اورسیا ہ کو“ ہم نے اس پر غا لب ہی کے ایک اور لا جواب مصرعے کی گرہ لگائی ”چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کا فر لگی ہوئی“ہمارے بزر گوں سے سینہ بہ سینہ جو روایات ہم تک پہنچی ہیں ان کی رو سے 200سال پہلے پا کستا نی خطے میں کسی بھی گاوں یا شہر میں ”چائے“ نہیں تھی، اس لئے ”چائے پا نی“ کا رواج نہیں تھا اور نتیجے کے طور پر بد عنوا نی بھی نہیں تھی، مہا راجہ رنجیت سنگھ کے دربار میں بھی چائے نہیں پہنچی تھی وہ لو گ خا لص دودھ کی لسی، دہی، مکھن، پنیر سے کا م چلا لیتے تھے خیبر پختونخوا کے پہا ڑی علا قوں میں گندم اور دودھ سے مختلف نا موں کے پکوان تھے جو نا شتہ اور عصرانہ میں پئیے جا تے تھے ان میں سے ڈاؤ ڈاؤ، کڑی وغیرہ اب تک چائے کی جگہ مستعمل ہیں رمضا ن المبارک میں افطاری کے لئے آج بھی کڑی اور ڈاؤ ڈاؤ کو چائے پر تر جیح دی جا تی ہے گویا چائے کے بغیر گذارہ ہو تا تھا اب بھی گذارہ ہو سکتا ہے ہمارے پڑوس میں عوامی جمہوریہ چین اور اسلا می جمہوریہ ایران دو ایسے مما لک ہیں جومختلف جڑی بو ٹیوں کے مشروب بنا کر چا ئے کی جگہ استعمال کرتے ہین، عرب مما لک میں بھی چائے کے متبا دل کئی مشروبات کا عا م رواج ہے، چینی اس حد تک جا تے ہیں کہ جنگلی جھاڑیوں کے پتوں سے سینکڑوں مشروبات تیار کر کے ان کو چھو ئی پھو ئی، چن پھو جیسے مختلف نا م دیکر شوق سے مزے لے لے کر پیتے ہیں اور مہما نوں کو پلا تے ہیں یہ جھاڑیاں ہمارے جنگلوں میں بھی بکثرت پا یے جا تے ہیں لیکن ہمیں کینیا، بنگلہ دیش، سری لنگا اور دیگر مما لک سے درآمد کر کے ڈالروں میں آئی ہوئی چائے کو بھینس اور گائے یا بکر ی کے دودھ کے ساتھ پینے کا فضول چسکا لگا ہوا ہے حکما ء، طبیبوں اور ڈاکٹروں کی رائے ہے کہ دودھ والی چائے معدے کے لئے مضر ہے خون کی کمی کا سبب بنتی ہے مگر ہم اس طرف دھیاں نہیں دیتے ہمارے ایک دوست بیمار ہوئے تو ان کی اہلیہ نے ڈاکٹر کو شکا یت لگائی کہ چائے بہت پیتا ہے نا شتے میں 12کپ چائے انڈیلتا ہے ڈاکٹر نے مریض سے پو چھا کیا یہ بات درست ہے؟ تو مریض نے کہا ”ایک ہی پیا لی میں پیتا ہوں“ ان کی اہلیہ نے گرہ لگائی ایک ہی پیا لی میں 12دفعہ پیتا ہے ہمارے دوست نے مر زا غا لب کے لہجے میں کہا ”پیتے ہیں چائے جس قدر ملے“ جھا ڑیوں کے پتوں سے متبادل مشروب بنا نے کا ذکر آیا تو ایک باور چی کا قصہ یاد آیا ایک افیسر میدا نی شہروں سے پہاڑی دیہات میں آیا، دو سال رہا افیسر کا شوق تھا ہر روز ساگ ہو اور ہر روز نئی ساگ ہو، ایک ساگ کو دوبارہ نہ پکا ئی جا ئے، ما ر کیٹ میں دستیاب ساگ ایک مہینے میں ایک ایک ہو کر ختم ہوئے تو باور چی نے درختوں کے پتوں سے کا م لینا شروع کیا گر میوں والے پتے ختم ہوئے تو سر دیوں والے پتے پکا ئے گئے افیسر کبھی کبھی ساگ کا نا م بھی پوچھتا تھا وہ ان درختوں اور جھا ڑیوں کے مقا می نا م بتا تا جو افیسر کی سمجھ میں نہ آتا ایک دن افیسر نے کہا اردو اور انگریزی میں بھی کوئی نا م بتاؤ، باور چی نے کہا یہ ”سیر یپلینگ“ ہے، یہ ”سو روڈان“ ہے ہم امپورٹ بل کم کرنے اور ڈالر بچا نے کے لئے سیریپلینگ اور سوروڈان جیسے سینکڑوں پتوں کی چائے بنا سکتے ہیں کسی کا قول ہوگا ”چائے چائے ہو تی ہے اصلی ہو یا جعلی“۔