داد بیداد ۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔بجلی کی کمی کا علا ج
رونے دھو نے کے لئے مو ضو عات اور بہا نوں کی کمی نہیں سب سے تکلیف دہ امر یہ ہے کہ ملک میں 3لا کھ میگا واٹ بجلی صرف پا نی اور ہوا سے پیدا کر نے کی گنجا ئش ہے اور ہمارا ملک 75سالوں میں صرف 7ہزار میگا واٹ پن بجلی پیدا کرتا ہے 10ہزار میگاواٹ بجلی تیل سے پیدا کر تا ہے 3ہزار میگاواٹ جو ہری توا نا ئی سے پیدا کر تا ہے اگر ہمارے ملک میں پن بجلی کے منصو بے بنتے تو 75سالوں میں ہم بجلی میں خود کفیل ہونے کے بعد دوسرے ملکوں کو بجلی فروخت کر کے زر مبا دلہ کما رہے ہو تے لیکن صورت حال یہ ہے کہ تیل کے منصو بوں کی وجہ سے بجلی مہنگی ہے اور ملک کے اندر 7ہزار میگا واٹ بجلی کی مستقل کمی رہتی ہے جو گر میوں میں مزید کم پڑ تی ہے لو گ مہنگی بجلی کا رونا بھی روتے ہیں اور بجلی کی لو ڈ شیڈنگ کے مستقل عذاب سے بھی گذر تے ہیں اس روز یہی بات مو ضوع بحث تھی ہال سامعین سے بھر اہوا تھا، حا ضرین میں صنعتکار، سر ما یہ دار، چاگیردار اور سیا ستدان بھی تھے، وکلاء، صحا فی اور سول سو سائیٹی کے دوسرے نما ئیندے بھی تھے واپڈا کے سابقہ اور مو جودہ حکام بھی تھے علی مر تضیٰ زیدی نے عوامی زبان میں سیدھے سادے اسلوب میں بجلی کے بحران پر روشنی ڈالی ان کی گفتگو تین نکا ت پر مشتمل تھی پہلا نکتہ یہ تھا کہ بجلی کا بحران کیوں ہے؟ دوسرا نکتہ یہ تھا کہ پا کستان میں بجلی پیدا کرنے کے کیا کیا وسائل ہیں؟ تیسرا نکتہ یہ تھا کہ یہ قصو ر کس کا ہے؟ چوتھی بات صحا فیوں کو معلوم تھی مگر مقرر نے خا مو شی اختیار کی، سوال کرنے پر بھی نہ بو لے شاید کوئی مجبوری تھی جس بات کو مقرر نے لا ئق تو جہ نہیں سمجھا وہ بات یہ تھی کہ پا نی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے پر ما ہا نہ اور سا لا نہ بجٹ نہیں ملتا، یہ بجٹ نہ ملے تو کر پشن کا راستہ ہا تھ نہیں آتا نیز ڈیم بنا نے یا ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے ایک منصو بے پر 7ارب سے لیکر 10ارب تک کا خر چہ آتا ہے اس کو خر چ کرنے میں 8سال سے لیکر 11سال تک کا عرصہ لگتا ہے اس عرصے میں چار وزیر، چار چیئر مین اور چار دیگر حکام تبدیل ہو تے ہیں منصو بے کا 20فیصد کمیشن منصو بہ منظور کرنے والے کو نہیں ملتا اس لئے منصو بہ منظور کرنے والا وزیر یا چیئر مین دودھ دینے والی گائے کو ذبح نہیں کر تا تیل سے چلنے والے منصو بے کا کمیشن جیب میں ڈالتا ہے اور سالا نہ بجٹ میں جار یہ اخرا جا ت کے لئے گنجا ئش نکا ل کر مزید آمدن پیدا کر تا ہے یہ شیطا نی چکر ہے جس کی وجہ سے فیلڈ مارشل ایوب خا ن کے بعد پن بجلی کا کوئی بڑا منصو بہ نہیں آیا کا لا باغ ڈیم کو بھی سیا ستدانوں کے ذریعے واپڈا نے منسوخ کر وایا علی مر تضیٰ زیدی نے ریسرچ کی بنیاد پر اعداد وشمار پیش کر تے ہوئے سامعین کو بتا یا کہ گلگت بلتستان میں پا نی سے دو لا کھ میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے، خیبر پختونخوا کے ملا کنڈ ڈویژن میں 50ہزار میگا واٹ بجلی پا نی سے پیدا کرنے کی گنجا ئش ہے، سندھ کی ساحلی پٹی میں جو ونڈ کا ریڈور (Wind Corridoor)مو جو د ہے اس کا ریڈور سے 50ہزار میگا واٹ مزید بجلی پیدا کی جا سکتی ہے یہ بات سب کو معلوم ہے لیکن حکمرانوں کی بے حسی اور بد عنوا نی کی وجہ سے عوام کو مہنگی بجلی اور لوڈ شیڈنگ کے عذابوں سے گذر نا پڑتا ہے ایک سوال کے جواب میں ونڈ کاریڈور کی وضا حت کر تے ہوئے قدرت خدا وندی کے عجیب کر شمے کا ذکر کیا انہوں نے کہا کہ سندھ اور بلو چستان میں سمندر بھی ہے صحرا بھی ہیں صحرا ووں میں گرم ہوا ہر روز اوپر کی طرف جا تی ہے اس کی خا لی کی ہوئی جگہ کو پر کرنے کے لئے سمندر سے ٹھنڈی ہوائیں مسلسل آتی رہتی ہیں ونڈ ٹر بائین کے ذریعے 50ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہونے کا امکان ہے اور دوسرے ملکوں میں ایسا ہی ہو تا ہے کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ہمارے ملک میں 3لا کھ میگا واٹ سستی بجلی کی گنجا ئش ہو نے کے باوجود ہم 7ہزار میگا واٹ کی کمی پوری نہیں کر سکتے اور آنکھیں بند کر کے 14ہزار میگاواٹ مہنگی بجلی پیدا کر رہے ہیں۔