اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والی خواتین کو سیاسی میدان میں سیاسی جماعتوں کی پزیرائی درکار ہے۔۔۔۔تحریر:سید نذیر حسین شاہ نذیر
خیبر پختونخوا کے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں چترال ٹاون سے بلا مقابلہ ویلچ کونسل کا حصہ بننے والی مسیحی خاتون ربقہ شہزادی نے میڈیا سے خصوصی گفتگومیں بتایا کہ یہ بہت خوش ائین ہے کہ وہ بلدیاتی نظام کا حصہ بنی ہیں اور اس قابل ہیں کہ اپنی مسیحی برادری اور خصوصاً مسیحی عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیئے نہ صرف یہ کہ وہ ٓاواز اٹھا سکتی ہیں بلکہ ان کی ترجمانی کرتے ہوئے ان کے مسائل کے حل کے لیے بھی کوشش کر سکتی ہیں۔
پینتالیس سالہ ربقہ شہزادی کی پیدائش ضلع ننکانہ صاحب کی تحصیل شاہکوٹ کی ہے۔ وہ مقامی گورنمنٹ ہائی سکول سے مڈل پاس کرنے کے بعدغربت کی وجہ مزید تعلیم جاری نہ رکھ سکیں۔ ان کا تعلق محنت مزدوری کرنے والے خاندان سے ہے۔ ہوش سنبھالتے ہی انہوں نے اپنے والدین کو محنت مشقت کرتے دیکھا۔ماں باپ دونوں مزدوری کرتے تھے۔ محنت ومشقت کی وجہ سے والد کے ہاتھوں پر ہمیشہ میں نے چھالے پڑے دیکھے۔ پچیس سال قبل ان کی شادی ہوئی۔ ان کے شوہرچترال اسکاوٹس میں ملازمت کرتے ہیں۔
ربقہ شہزادی دو ہزار پندرہ میں بھی بلدیاتی نظام کا حصہ بنیں۔ انہوں نے 2015کے بلدیاتی انتخابات سے اپنے سیاسی وسماجی سفرکاآغازشروع کیا۔ وہ ویلچ کونسل شیاقوٹک چترال کے تین پولنگ اسٹیشن سے سرکاری نتائج کے مطابق 1850ووٹ لے کرکامیاب قرارپاءٰیں۔ جبکہ ان کے مدمقابل دوسری کرسچین خاتون کو470ووٹ ملے۔31مارچ 2022 کے بلدیاتی انتخابات میں ویلچ کونسل شیاقوٹک چترال سے بلامقابلہ خواتین کے اقلیتی نشست سے منتخب ہوئیں۔
ربقہ شہزادی کاکہناہے کہ بدقسمتی سے چترال میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کوبھی برابری کی سطح پر اپنی صلاحیتوں کوبروئے کارلانے کاموقع نہیں دیاجاتاہے۔گذشتہ کئی سالوں میں خواتین نے مختلف رکاوٹوں کوعبورکرتے ہوئے سیاست میں قدم رکھا۔حالیہ بلدیاتی انتخابات میں تحصیل دروش سے ایک خاتون خدیجہ بی بی عوامی نیشنل پارٹی کے ٹکٹ سے تحصیل چیئرمین شپ کاالیکشن لڑکرپانچ ہزارکے قریب ووٹ لیے۔اسی طرح اور خواتین بھی حوصلہ مندی سے حالات کا سامنا کرتے ہوئے سیاست کا حصہ بن رہی ہیں۔ ربقہ شہزادی کا کہنا تھا کہ چترال پرامن خطہ ہے جہاں لوگ سیاسی شعوررکھتے ہیں تاہم سیاست میں خواتین کی مناسب حوصلہ آفزائی نہیں کی گئی۔چترال میں خواتین اورمردوں کی آبادی میں کوئی زیادہ فرق نہیں لیکن جہاں ہرطرف مردوں کابول بالاہے وہیں نصف آبادی کی نمائندگی کرنے کے لئیضلع کونسل اورتحصیل کونسل کی عورتوں کے لئے مخصوص نشستیں تین چارسے زیادہ نہیں ہوتیں۔ چترال کے چندخواتین اپنی سیاسی صلاحیتوں کوبھی منواچکی ہیں مگران کی صلاحیتوں کو مزید پروان چڑھانے لئے پارٹی کی طرف سے حوصلہ افزائی نہیں ہوتی ہے۔ جب وہ عملاً سیاسی میدان میں اترتی ہیں تو ان کو مطلوبہ مدد نہیں فراہم کی جاتی۔
ربقہ شہزادی نے بتایاکہ چترال کے مکین اپنی قدیم رسم رواج کے بڑے پابندہے یہاں خواتین کوباہرنکل کرالیکشن کمپین کرنابہت مشکل ہے یہاں کے خواتین کی اکثریت گھروں تک محدود ہے۔ یہاں کے خواتین میں بھی سیاسی شعورپھیلانے کی ضرورت ہے۔
ربقہ شہزادی کا کہنا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کوپابندبنانے کی ضرورت ہے جب وہ الیکشن کے لئے مانگی گئی مخصوص نشستوں کااندراج کریں توصنفی مساوات کومدنظررکھیں اوراقلیتی امیدواروں کی فہرستوں میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کوبھی شامل کریں یاخواتین کے لئے الگ خصوصی نشستیں رکھیں اور تمام سیاسی جماعتوں کو پابند بنایا جائے کہ وہ اپنی مینارٹی ونگز میں صنفی برابری کو یقینی بنائیں۔
ر بقہ شہزادی نے چترال میں آبادکرسچین کمیونٹی کے مسائل پرروشنی ڈالتے ہوئے بتایاکہ چترال وی سی ٹو میں مسیحی برادری کے پینتالیس گھرانے گذشتہ 35سالوں سے آبادہیں۔ معاشی طور پر مسیحی برادری کمزور ہے۔ یہا ں مسیحی برادری کاکوئی مرجائے تو چترال میں قبراستان کی جگہ نہ ہونے کی وجہ سے دفنانے کے لئے پنجاب لے جاناپڑتا ہے۔ یہاں سے ایک معیت کولے جانے میں کم ازکم ستر سے اسی ہزار روپے تک کے اخراجات آتے ہیں۔ مسیحی برادری حکومت وقت سے قبرستان کے لئے زمین کا مطالبہ کرتی ہے۔
ربقہ شہزادی کا کہنا جب الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے قومی یا صوبائی اسمبلیوں کی مخصوص نشستوں کے لئے ان پارٹیوں سے خواتین کے نام مانگے جاتے ہیں تو سیاسی جماعتیں عموماً مسلم خواتین کی فہرست جمع کرواتی ہیں اور جب اقلیتی نمائندگی کے لئے فہرست مانگی جاتی ہے تو بھی صرف مرد اقلیتی افراد کی لسٹ فراہم کی جاتی ہے۔اس طرح اقلیتی خواتین نہ تو خواتین کی فہرست میں اور نہ ہی اقلیتی برادری کی فہرست میں شامل کی جاتیں ہیں۔ اس طرح سیاست میں اقلیتی برادری کی خواتین اقلیتوں میں بھی مزید اقلیت کا سامنا کرتی ہیں۔ ربقہ شہزادی نے تقاضا کیا کہ سیاسی جماعتوں کو اقلیتی برادریوں کی خواتین کی نمائندگی کے لیئے پابند کیا جا ئے۔
”آئین پاکستان بھی مسیحی برداری سمیت تمام اقلیتوں کے حقو ق کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ بحیثیت پاکستانی شہری حکومت کافرض ہے کہ مسیحی برادری کے مسائل کاحل کریں اورایسے اقدام کریں ان کی استحصال پاکستانی معاشرے میں کم ہو۔آئین پاکستان کے تحت ایوان میں اقلیتی برادری کے خواتین کوبھی مناسب نمائندگی دینے کی ضرورت ہے اور اقلیتوں کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔
2017ء کے مردم شماری کے مطابق خیبرپختونخوا میں مسیحی برادری کی آبادی 36,668 ہے جوکہ صوبے کی کل آبادی کا0.15فیصدہے۔جبکہ پنچاب میں تعداد16,99,843اورسندھ میں 2,94,885 اورپورے ملک کی آبادی کا1.27فیصدہے۔”